مزارعت پر دی گئی زمین کا عشر زمیندارپر ہوگا،یا کاشتکار پر؟

مزارعت پر دی گئی زمین کا عشر زمیندارپر ہوگا،یا کاشتکار پر؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری ایک زمین ہے، جس کو میں نے زراعت کے لیے ایک کاشتکار کو دیا ہے، زمین کا سارا خرچہ میری طرف سے ہے، کاشتکار صرف عمل کرتا ہے، معاملہ اس طرح طے ہوا، کہ جو پیداوار ہوگی، اس میں سے دو ثلث میرے اور ایک ثلث کاشتکار کا، اب آیا دونوں پر عشر ہوگا یا صرف زمیندار پر؟ زمین کو ٹیوب ویل کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں زمین کو ٹیوب ویل کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے، جس میں خرچہ زیادہ ہے، لہٰذا زمین پیداوار میں نصف عشر واجب ہوگا، نیز زمیندار اور کاشتکار دونوں کو اپنے اپنے حصے سے نصف عشر دینا ہوگا۔

لمافي الهداية:

«قال وما سقي بغرب أو دالية أو سانية ففيه نصف العشر على القولين لأن المؤنة تكثر فيه ونقل فيما يسقى بالسماء أو سيحا وإن سقي سيحًا وبدالية فالمعتبر أكثر السنة كما مر في السائمة». (كتاب الزكاة، باب زكاة الزروع والثمار: 2/58، البشرى)

وفي رد المحتار:

«لما في البدائع من أن المزارعة جائزة عندهما، والعشر يجب في الخارج، والخارج بينهما فيجب العشر عليهما». (باب العشر، مطلب: هل يجب العشر على المزارعين في الأراضي السلطانية: 3/326، 327، رشيدية)

وفي فقه الزكاة:

«وأما أن يزارع عليها مزارعة صحيحة بربع ما يخرج منها أو ثلثه أو نصفه – حسب اتفاقهما – بالزكاة على كل واحد من الطرفين في حصته إذا بلغت النصاب». (زكاة الأرض المستأجرة: 1/449، الرسالة العالمية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 172/08