مرہونہ چیز سے نفع اٹھانے کا حکم

مرہونہ چیز سے نفع اٹھانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں رہن پر (گروی)زمین رکھتے  ہیں،یعنی اس پر پیسے لے لیتے ہیں، وہ رقم محفوظ ہوتا ہے اور وہ شخص جس نے رقم دیا ہو، زمین کو کاشت کرتا ہے، اور تمام نفع خود لیتا ہے، زمین کے مالک کو نہیں دیتا ہے،کیا یہ سودی کاروبار ہے یا غیر سودی ؟ فتوی دیں۔

جواب

مرتہن (جس کے پاس رہن رکھوایا جاتا ہے) کا مرہونہ چیز سے نفع اٹھانا سود شمار ہوتا ہے، اور صورت مذکورہ میں بھی مرتہن مرہونہ زمین سے نفع اٹھاتا ہے، لہٰذا یہ بھی سودی کاروبار ہے۔

لمافي البحر:

قال رحمه الله (ولا ينتفع المرتهن بالرهن استخدامًا وسكنى ولبسًا وإجارة وإعارة) لأن الرهن يقتضي الحبس إلى أن يستوفي دينه دون  الانتفاع فلا يجوز لانتفاع إلا بتسليط منه. (كتاب الرهن: 8/438، رشيدية)

وفي التنوير مع الدر:

(لا انتفاع به مطلقا) لا باستخدام ولا سكنى ولا لبس ولا إجارة ولا إعارة، سواء كان من مرتهن أو راهن (إلا بإذن) كل للآخر، وقيل: لا يحل للمرتهن لأنه ربا، وقيل: إن شرطه كان ربا، وإلا لا. (كتاب الرهن: 10/86، رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 172/148،155