کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گھروالے ہر سال گیارہویں کی تقریب کرتے ہیں اور لوگ آتے ہیں ، کھانا پکایا جاتاہے، کیا یہ کھانا ٹھیک ہے یا نہیں؟میں اپنی امی ابو کو منع کرتاہوں کہ یہ رسم ختم کردیں ، لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب تک ہم زندہ ہیں یہ ہوتا رہے گا؟ آپ بتائیں کہ گیارہویں کی کیا حقیقت ہے؟حوالہ سے رہنمائی فرمائیں۔
ایصال ثواب کرنا شرعاً جائز اور مستحسن ہے، آپﷺ نے اس کی ترغیب بھی دی ہے، اسی طرح اولیاء اللہ اور بزرگان دین کے ارواح طیبہ کو کچھ پڑھ کر یا صدقات وغیرہ کے ذریعے ایصال ثواب کرنا جائز ہے،لیکن ایصال ثواب کرنے کے لیے کسی ماہ اور تاریخ کا تعیین کرنا،کھانے وغیرہ کا التزام کرنا، اسی طرح غیر اللہ کے نام پر نذرونیاز مانگنا،یہ سب امور شرعاً ناجائز اور بدعت ہیں، لہٰذا صورت مسئولہ میں گیارہویں کی تقریب کرنا،کھانا وغیرہ پکانا اور غیر اللہ کے نام پر نذرونیاز مانگنا ناجائز اور بدعت ہے۔لما في مراقي الفلاح:
’’فلإنسان أن یجعل ثواب عملہ بغیرہ عند أھل السنۃ والجماعۃ صلاۃ أو صوما أو حجا أو صدقۃ أو قراءۃ للقرآن أو الأذکار أو غیر ذلک من أنواع البر ویصل ذلک إلی المیت،وینفعہ .قالہ الزیلعي في باب الحج: عن الخیر،وعن علي رضي اللہ عنہ أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: من مر علی المقابر فقرا،[قل ھو اللہ أحد]إحدیٰ عشرۃ مرۃ ثم وھب أجرھا للأموات أعطی من الأجر بعدد الأموات‘‘. رواہ الدار قطني.(کتاب الصلاۃ،باب أحکام الجنائز،فصل في زیارۃ القبور:622،رشیدیۃ).
وفي الدر مع الرد:
’’واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یوخذ من الدراھم والشمع والزیت ونحوھا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیھم فھو بالإجماع باطل وحرام ما لم یقصدوا صرفھا الفقراء الأنام، وقد ابتلی الناس بذلک‘‘.
’’(قولہ:تقربا إلیھم) کان یقول: یاسیدي،فلان إن رد غائبي أو عوفي مریضي أو قضیت حاجتي فلک من الذھب أو الفضۃ من الطعام أو الشمع أو الزیت،کذا بحر‘‘.(کتاب الصوم،مطلب في النذر الذي یقع للأموات :491/3،رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/198