کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مدارس مىں زكوة كى رقم تملىك كرنے كے بعد استعمال كى جاتى ہے، اسی طرح کھانے پینے کا نظم بھی تملیک کے بعد بنایا جاتا ہے، یا کوئی چیز زکوۃ کی مد میں طلبہ کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے دی گئی، اسے بھی بعد از تملیک تقسیم کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تملیک کرنے کا درست طریقہ ازروئے شریعت کیا ہونا چاہیے؟
الف: حیلہ تملیک کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مدرسے کامنتظم اصحابِ اموال سے ان کی زکوۃ وصول کر کے مستحق طلباء کے حوالے کردے، اور پھر طلباء اپنی مرضی سے منتظم مدرسہ کو وہ اموال دے کر مدرسے کے مصالح میں اسے استعمال کرنے کا وکیل بنا دیں۔
ب: دوسری بہتر صورت یہ ہے کہ مدرسے کا منتظم کسی مستحق طالب علم کو اس بات پر تیار کرے ،کہ وہ کسی سے قرض لے کر منتظم مدرسہ کو مدرسے کے مصالح میں استعمال کرنے کے لیے دیدے، تاکہ وہ اس سے اپنا قرض ادا کرے۔لما في الهندية:
’’وكذلك في جميع أبواب البر التي لا يقع بها التمليك كعمارة المساجد وبناء القناطر والرباطات، لا يجوز صرف الزكاة إلى هذه الوجوه، والحيلة: أن يتصدق بمقدار زكوتہ على فقير، ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه، فيكون للمتصدق ثواب الصدقة ولذالك الفقير ثواب بناء المسجد والقنطرة‘‘.(كتاب الحىيل، الفصل الرابع في الزكاة: 359/6:دار الفكر)
وفي البحر الرائق:
’’والحيلة في الجواز في هذه الأربعة أن يتصدق بمقدار زكاته على فقير ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه، فيكون لصاحب المال ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب‘‘. (كتاب الزكاة، باب المصرف: 424/2: رشيدية)
وفي المحيط:
’’فنقول مذهب علماؤنا.... أن كل حيلة يحتال بها الرجل، ليتخلص بها عن الحرام أو ليتوصل بها إلى حلال، فهي حسنة‘‘. (كتاب الحيل، جواز الحيل وعدمها: 68/21، مكتبة إدارة القرأن).
وفي الدر المختار:
’’ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كمامر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجدو) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه).... وقدمنا أن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء، وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره، والظاهر نعم‘‘.(كتاب الزكاة، باب المصرف: 3/ 341-344:رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/126