متوفی شخص سے قرض لی ہوئی رقم کا کیا کیا جائے؟

متوفی شخص سے قرض لی ہوئی رقم کا کیا کیا جائے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے ایک آدمی سے ١٠،١٠،١٥،٢٠ روپے کی اقساط میں کچھ رقم ۱۹۵۸ء میں لی تھی، جس کی مجموعی تعداد اس وقت زیادہ سے زیادہ ۴۰۰  روپے بنتی تھی ،تاحال میں اس کی ادائیگی نہیں کرسکا،مدت ہوئی وہ آدمی اس دنیا سے کوچ کر گیا، اس کے ورثاء کا کوئی علم نہیں،مذکورہ رقم کس تعداد اور کس طرح ادا کی جائےکہ میں اس سے شرعی لحاظ سے بری الذمہ ہو سکوں؟

جواب

آپ نے جتنی رقم اس شخص سے لی تھی اس کا محتاط اندازہ لگائیے اور  اس کی طرف سے صدقہ کر دیجیے ،اس سے آپ عنداﷲبری ہو جائیں گے۔

''والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیھم، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ''.(رد المحتار، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب فیمن ورث ما لا حراما: ٥/٩٩، سعید)

''والسبیل في المعاصي ردّھا وذالک ھھنا برد المأخوذ إن تمکن من ردہ بأن عرف صاحبہ وبالتصدق بہ إن لم یعرفہ، لیصل إلیہ نفع مالہ إن کان لا یصل إلیہ عین مالہ''.(إعلا ء السنن: ١٦/٣٢٤، إدارۃ القرآن، کراتشي).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی