مال زکوٰۃ پہنچانے کا کرایہ زکوٰۃ سے نکالنے کا حکم

Darul Ifta

مال زکوٰۃ پہنچانے کا کرایہ زکوٰۃ سے نکالنے کا حکم

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کتابوں کا کاروبار کرتا ہے، سال پورا ہونے پر کتابوں ہی کو زکوٰۃ میں ادا کرنا چاہتا ہے، زکوٰۃ کی مد میں الگ کی ہوئی کتابیں دینی مدرسہ میں دینا چاہتا ہے،دریافت طلب امر یہ ہے کہ مدرسہ تک پہنچانے کے لیے جو کرایہ لگے گا وہ بھی زکوٰۃ کی مد میں سے دے سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

زکوٰۃ کی رقم ضروری ہے کہ مستحق زکوٰۃ کو مالکانہ طور پر تملیکاً بلا عوض دی جائے اور مالِ زکوٰۃ کو کرایہ میں دینا تملیک بلا عوض نہیں ہے، لہٰذا مالِ زکوٰۃ سے کرایہ ادا کرنا جائز نہیں۔
البتہ یہ صورت ہو سکتی ہے کہ آپ جس ادارے یا فرد کو کتابیں دینا چاہتے ہیں، اس کے کسی آدمی کو بلا کر او رکتابوں میں سے کچھ کم کرکے اس کی جگہ کرایہ کی رقم کے بقدر مدِّ زکوٰۃ میں سے اسے دے دیں، وہ اپنے قبضے میں لے کر کرایہ پر خرچ کرے، یا کتابیں کچھ رقم کے ساتھ کسی کے ساتھ بھیج دیں ،وہ مستحق فرد دونوں چیزیں وصول کرکے پھر اسی رقم کو کرایہ میں ادا کر دے۔
ھي تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر غیر ہاشمی ولا مولاہ مع قطع المنفعۃ عن المملّک من کل وجہ للّٰہ تعالی.''(تنویر الأبصار، کتاب الزکاۃ: ٢/٢٥٦،سعید)
ولا یدفع المزکي زکاتہ إلی أبیہ وجدہ وإن علا، ولا إلی ولدہ وولد ولدہ وإن سفل؛ لأن منافع الأملاک بینہم متصلۃ فلا یتحقق التملیک علی الکمال؛ ولا إلی امرأتہ؛ للاشتراک في المنافع عادۃ، ولا تدفع المرأۃ إلی زوجہا''، (الھدایۃ، کتاب الزکاۃ، باب من یجوز دفع الصدقات إلیہ ومن لایجوز: ١/٢٠٦، شرکۃ علمیۃ)
''وقدمنا أن الحیلۃ أن یتصدق علی الفقیر ثم یأمرہ بفعل ھذہ الأشیاء.(الدر المختار، کتاب الزکاۃ: ٣٤٣، دارالمعرفۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer