کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے زکوٰۃ کے پیسے رمضان کے مہینے میں نکالے تھے، اس میں سے مستحق لوگوں کو روپیہ دے رہا تھا اور وہ پیسے دکان پر رکھے تھے، ایک تھیلی جس کے اندر اندازاً٢٠٠٠روپے موجود تھے، اب وہ تھیلی دکان میں نہیں مل رہی یا تو ملازم نے چوری کرلی یا کوئی اور بات ہوگئی ہے، آپ بتائیں کہ جو زکوٰۃ کے روپے دکان سے غائب ہوئے ہیں وہ مجھے دوبارہ دینے ہیں یا میری زکوٰۃ ادا ہوگئی ہے۔
زکوٰۃ کی رقم میں سے جتنی مقدار فقیروں کو دی گئی ہے، زکوٰۃ کی اتنی مقدار ادا ہوگئی، باقی جتنی رقم گم ہوگئی ہے، اتنی ہی رقم دوبارہ دینا ضروری ہے،محض زکوٰۃ کی رقم الگ کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔''فلوضاعت لاتسقط عنہ الزکاۃ ولومات کانت میراثا عنہ. (رد المحتار، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء: ٢/٢٧٠، سعید) (وکذا في البحرالرائق، کتاب الزکاۃ: ٢/٣٦٩، رشیدیۃ)
''رجل عزل زکاۃ مالہ، ووضعھا في ناحیۃ بیتہ، فسرقھا سارق، لایقطع یدہ للشبھۃ، وعلیہ أن یزکیھا''(خلاصۃ الفتاوی: کتاب الزکاۃ، الفصل الخامس في زکاۃ المال: ١/٢٣٨، امجد اکیڈمی لاھور)
ولا یخرج عن العھدۃ بالعزل بل بالأداء للفقراء . (الدرالمختار، کتاب الزکاۃ: ٣/٢٢٥، دارالمعرفۃ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی