قرض پر زکوٰۃ کا وجوب وصول ہونے کے بعد

Darul Ifta

قرض پر زکوٰۃ کا وجوب وصول ہونے کے بعد

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کے بکر پر تقریباً دس ہزار روپے قرض تھے، ایک سال کے بعد زید نے بکر سے پانچ ہزار روپے جو کہ دس ہزار روپے قرض تھا، ان میں سے وصول کر لیے اورپھر وصول کرنے کے کچھ دن بعد زید نے بکر سے وصول کیے ہوئے پانچ ہزار روپے خالد کو ادھار دے دیے،اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ کیا اتنا عرصہ یہ رقم زید کی جو بکر کے پاس تھی کیا اس رقم پر زکوٰۃ دینی پڑے گی ،یا نہیں؟

جواب

صورت مسؤلہ میں جو رقم زید کی بکر کے پاس تھی یعنی دس ہزار روپیہ اس کے وصول کرنے کے بعد زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے، اگر قبل از وصول بھی زکوٰۃ دے دی جائے تو ادا ہو جائے گی۔
واعلم أن الدیون عند الإمام ثلاثۃ: قوي، ومتوسط، وضعیف، فتجب زکاتہا إذا تم نصابا وحال الحول، لکن لا فورا بل عند قبض أربعین درہما من الدین القوي کقرض وبدل مال تجارۃ فکلما قبض أربعین درہما یلزمہ درہم وعند قبض مائتین منہ لغیرہا أي:من بدل مال لغیر تجارۃ وہو المتوسط، کثمن سائمۃ وعبید خدمۃ ونحوہما مما ہو مشغول بحوائجہ الأصلیۃ کطعام وشراب وأملاک.ویعتبر ما مضی من الحول قبل القبض في الأصح،ومثلہ ما لو ورث دینا علی رجل وعند قبض مائتین مع حولان الحول بعدہ أي:بعد القبض من دین ضعیف وہو بدل غیر مال کمہر ودیۃ، وبدل کتابۃ وخلع، إلا إذا کان عندہ مایضم إلی الدین الضعیف کما مر.(الدر المختار، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال: ٢/٣٠٥،٣٠٦، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer