کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ۱۔صاحبِ نصاب کسے کہتے ہیں؟
۲۔میرے پاس اس وقت پانچ تولے چاندی اور تقریباً ٢٢٠٠٠روپے کا سونا موجود ہے، اور ان پر سال بھی گزرچکا ہے،اس کے علاوہ ۷۹۰۰روپے نقد جن پر ابھی سال نہیں گزرا اور تقریباً١٢٠٠٠روپے ادھار جوکہ فروری میں ملنا متوقع ہے، تو کیا اس صورت میں زکوٰۃ فرض ہے؟
۱۔جس آدمی کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی، یا مالِ تجارت، یا نقدی، یا ان چاروں اشیاء یا ان میں سے بعض کا مجموعہ سونے یا چاندی کے وزنِ مذکور کی قیمت کے برابر کا مالک ہو تو یہ شخص صاحبِ نصاب کہلائے گا۔
۲۔صورت مسؤلہ میں آپ صاحبِ نصاب ہیں اور سال گزرنے پر آپ پر کل مال کی زکوٰۃ کا ادا کرنا فرض ہے اور مال کے ہر جزء پر سال گزرنا ضروری نہیں۔(نصاب الذہب عشرون مثقالا والفضۃ مائتا درہم کل عشرۃ) دراہم (وزن سبعۃ مثاقیل) والمعتبر وزنھما أراء ووجوبا) لا قیمتھما (واللازم في مضروب کل)۔۔۔۔(وفي عرض تجارۃ قیمتہ نصاب من ذھب أو ورق مقوما بأحدھما ربع عشر).(التنویر مع الدر، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال: ٢/٢٩٥۔٢٩٩، سعید)
''الزکاۃ واجبۃ علی الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملک نصابا ملکا تاما وحال علیہ الحول''. (الھدایۃ، کتاب الزکاۃ: ١/١٨٥، شرکۃ علمیۃ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی