کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید اور بکر دو بھائی ہیں جن کی جائیداد وغیرہ سب مشترکہ ہے،اور دونوں صاحبِ نصاب ہیں ان پر زکوٰۃ واجب ہے،زید کہتا ہے کہ میں اپنی زکوٰۃ اپنے رشتہ دار ( عمر) کو دوں گا جو کہ سیّد ہے، لیکن انتہائی غربت کا عالم ہے کہ اس کے گھر والے گاؤں میں گھروں پر جا کر بھیک مانگتے ہیں،سیّد کو زکوٰۃ دینے کے بارے میں زید حضرت شاہ صاحب کے قول کو پیش کرتا ہے کہ انہوں نے بوجہ مجبوری سیّدوں کو زکوٰۃ دینا جائز قرار دیا ہے۔
جب کہ بکر کہتا ہے کہ چوں کہ سیّد کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں اس لیے میں ( عمر) کو زکوٰۃ نہیں دوں گا۔
اب مندرجہ ذیل امور قابلِ دریافت ہیں:
١۔ کیا سیّد کو زکوٰۃ دینا بوجہ مجبوری جائز ہے یا نہیں؟
٢۔اگر جائز ہے تو زید اپنے حصہ زکوٰۃ کو کس طرح ( عمر) کو دے، اس لیے کہ زید او ربکر دونوں بھائی ہیں ان کی جائیداد وغیرہ سب مشترک ہے،وہ دونوں زکوٰۃ اپنے کل مال میں سے مشترکہ طور پر ادا کرتے ہیں، کیا وہ اپنی کل زکوۃ کو نصف نصف کرکے ہر ایک اپنا حصہ متعین کرکے دے سکتے ہیں یا نہیں؟
٣۔ اگر زکوٰۃ دینا جائز نہیں تو حضرت شاہ صاحب (رحمۃ اﷲ علیہ)کے قول کا جواب کیا ہو گا؟
٤۔ کیا تملیک کے ذریعے سے (عمر)کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر دے سکتے ہیں تو وہ حیلہ کس طرح ہو گا؟
٥۔مذکورہ صورت میں کسی اجنبی مستحق زکوٰۃ کو زکوٰۃ دینا زیادہ بہتر ہے، یا حیلہ تملیک کرکے اپنے اس مجبور وتنگ دست قریبی رشتہ دار(عمر) کو؟مذکورہ بالا امور کے مفصل ومدلل جوابات باحوالہ دے کر عنداﷲماجور ہوں۔
١۔ جمہور علماء کرام رحمہم اﷲتعالیٰ کے نزدیک فقیر سیّد(ہاشمی)کو زکوٰۃ بلاحیلہ تملیک دینا نا جائز ہے، جو آدمی ان کو زکوٰۃ دے گا ،اس کی زکوۃ ادا نہیں ہو گی۔
٢۔بلا حیلہ تملیک زکوۃ ادا کرنا جا ئز نہیں ،البتہ اگر زید حیلہ تملیک سے کسی فقیر سیّد کے ساتھ امداد کرنا چاہے تو اس مشترکہ مال میں سے اپنے دوسرے شریک سے اپنا حصہ زکوۃ لے کر فقیر سیّد کو دے سکتا ہے:مثلاً اگر مشترک زکوۃ کی رقم ایک لاکھ روپے ہے تو جوزید اپنے حصہ زکوۃ سے کسی فقیر سیّد کی ( بعد از تملیک) امداد کرتا ہے ،وہ دوسرے شریک سے پچاس ہزار روپیہ لے سکتا ہے۔
٣۔ فقیر سیّد کو زکوٰۃدینے کا مسئلہ حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری صاحب۔ رحمہ اﷲتعالیٰ۔ سے پہلے بہت سے حضرات نے بیان فرمایا ہے ، لیکن جمہور فقہاء کرام۔ رحمہم اﷲ تعالیٰ۔ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ قول ظاہرِ مذہب اور ظاہر الروایہ کے خلاف ہے۔
اور بعض علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اولاً تو یہ (یعنی فقیر کو زکوٰۃ دینا)قیاس ہے جو کہ نص روایت بخاری: نحن أھل البیت، لاتحل لنا الصدقۃ کے معارض ہے،لہٰذا نص کو ترجیح ہو گی۔
دوسرا یہ کہ یہ قیاس خود تام نہیں ، اس لیے کہ حضور اکرم۔ صلی اﷲ علیہ وسلم۔ نے حرمت کی علت یہ بیان فرمائی کہ زکوٰۃ انسانوں کے مال کا میل کچیل ہے، یہ نہیں فرمایا کہ چوں کہ ان کے لیے خمس الخمس مقرر ہے، اس لیے ان کو زکوٰۃ دینا حلال نہیں۔
پس جب ” خمس الخمس کا مقرر ہونا” علت ہی نہیں ، تو اس کے ختم ہونے سے حرمتِ زکوٰۃ بھی مرتفع نہیں ہو گی، لہٰذا حرمتِ زکوٰۃ برقرار ہے اور یہی جمہور کا مذہب ہے کہ زکوۃ سیّد کے لیے بہرحال ناجائز ہے۔
٤۔ باقی رہا سوال حیلہ تملیک کا ؟ تو بہتر یہی ہے کہ صدقہ نافلہ سے کسی محتاج سیّد کی ضرورت کو پورا کر لیا جائے، لیکن اگر زکوٰۃ ہی سے سیّد (فقیر) کی امداد مقصود ہو تو بغیر حیلہ تملیک کے زکوٰۃ ان کو نہیں دی جاسکتی۔
حیلہ کا طریقہ یہ ہے کہ :” کسی مسکین(جو کہ مستحقِ زکوٰۃ ہو) کو مشورہ دیا جائے کہ تم اتنے روپے کسی سے قرض لے کر فلاں سیّد کو دے دو، ہم ادائیگی قرض میں تمہاری اعانت کریں گے، جب وہ مسکین قرض لے کر کسی فقیر سیّد کو دیدے تو تم اس مسکین کو جتنے روپے اس نے قرض لیے تھے، اتنے زکوٰۃ میں دیدو پھر وہ اپنے قرض خواہ کو دے گا۔
٥۔ اپنے غریب مستحق رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینے والے کے لیے احادیث نبویہ میں دوگنا ثواب کا تذکرہ آیا ہے، سب سے پہلے آدمی اپنے ذی رحم محرم( اگر مستحق ہوں) کو زکوٰۃ دے، تاکہ زکوٰۃ ( صدقہ) کا ثواب بھی ملے اور صلہ رحمی کا ثواب بھی۔
لیکن چوں کہ آپ کے رشتہ دار سارے” سیّد ” ہیں ، اس لیے بہتر تویہی ہے کہ ان کو صدقہ نافلہ دیں، لیکن اگر زکوٰۃ سے اس کی امداد مقصود ہو تو حیلہ تملیک جس کا اوپر ذکر ہوا ،اس پر عمل کرتے ہوئے اپنے نادار، غریب ، بھیک مانگنے والے، محتاج اور فقیر سیّد رشتہ دار کو زکوۃ دی جائے، ان شاء اﷲ صلہ رحمی کا ثواب بھی ملے گا اور صدقہ کا ثواب بھی۔ولا تدفع إلي بنی ہاشم؛ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: ''یا بني ہاشم إن اللّٰہ تعالی حرم علیکم غسالۃ الناس وأوساخہم''. (الھدایۃ، کتاب الزکاۃ، باب من یجوز دفع الصدقات إلیہ ومن لایجوز: ١/٢٠٦، شرکۃ علمیۃ)
وفي البحر:قولہ: (وبني ھاشم وموالیھم) أي لا یجوز الدفع لھم لحدیث البخاري.'' نحن أھل البیت لا تحل لنا الصدقۃ'' ولحدیث أبي داؤد: مولی القوم من أنفسھم وإنا لاتحل لنا الصدقۃ''.( البحرالرائق، کتاب الزکاۃ، باب المصرف: ٢/٤٢٩، رشیدیۃ)
والحیلۃ في الجواز في ہذہ الأربعۃ أن یتصدق بمقدار زکاتہ علی فقیر ثم یأمرہ بعد ذلک بالصرف إلی ہذہ الوجوہ، فیکون لصاحب المال ثواب الزکاۃ وللفقیر ثواب ہذہ القرب''. (البحر الرائق، کتاب الزکاۃ، باب المصرف: ٢/٤٢٤، رشیدیۃ)
وفي الدر: ثم ظاھر المذھب إطلاق المنع.''وفي الرد:یعنی سواء في ذلک کل الأزمان وسواء في ذلک دفع بعضھم لبعض ودفع غیرھم لھم.(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاۃ، باب المصرف: ٢/٣٥٠، سعید)
قلت ولا تفتر بما یذکروا من جوازھا لھم لسقوط عوضھا وھو الخمس؛ لأنہ قیاس في مقابلۃ النص أولا ثم ھذا القیاس نفسہ لا یتم؛ لأنہ علیہ السلام علل حرمتھا بکونھا أو ساخ الناس لا بتعویض الخمس ھھنا وإنما ھي حکمۃ مستقلۃ في مشروعیۃ حکم الخمس فلما لم یکن علۃ لم یلزم من ارتفاع الخمس ارتفاع حرمۃ الزکاۃ فتأمل حق التأمل. (إمداد الفتاوی: ٢/٢٨، دارالعلوم، کراتشی)
والحیلۃ في الجواز في ہذہ الأربعۃ أن یتصدق بمقدار زکاتہ علی فقیر ثم یأمرہ بعد ذلک بالصرف إلی ہذہ الوجوہ، فیکون لصاحب المال ثواب الزکاۃ وللفقیر ثواب ہذہ القرب''. (البحر الرائق، کتاب الزکاۃ، باب المصرف: ٢/٤٢٤، رشیدیۃ)
قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: ''الصدقۃ علی المسکین صدقۃ، وہي علی ذي الرحم ثنتان: صدقۃ وصلۃ''. (سنن الترمذی، أبواب الزکاۃ، الصدقۃ علی ذي قرابۃ: ١/١٤٢، سعید)
وجازت التطوع من الصدقات. (تنویر الأبصار، کتاب الزکاۃ، باب المصرف: ٢/٣٥١، سعید).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی