سیّد امام کو زکوٰۃ دینے کا حکم

Darul Ifta

سیّد امام کو زکوٰۃ دینے کا حکم

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سیّد امام کو زکوٰۃ دینا جائز ہے کہ نہیں، ہمارے گاؤں والے اپنی زکوٰۃ امام صاحب کو دیتے ہیں،امام صاحب کی تنخواہ وغیرہ نہیں،تمام گاؤں والے ان کومالِ زکوٰۃ دیتے ہیں،مقرر بھی یہی ہوا کہ ہم اپنی زکوٰۃ دیں گے، کیا امام صاحب کو مالِ زکوٰۃ دینا جائز ہے ،جب کہ وہ سیّد بھی ہو؟

جواب

صورت مسؤلہ میں امام کو بمعاوضہ امامت زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے، زکوٰۃ فقراء اور دوسرے مستحقین کا حق ہے، البتہ اگر معاوضہ کے علاوہ الگ محتاج سمجھ کر دی جائے اورمستحق زکوٰۃ بھی ہو تو جائز ہے ،لیکن امام صاحب چوں کہ ہاشمی یعنی سیّد ہے اور سیّد کو زکوٰۃ دینا کسی حالت میں جائز نہیں ہے۔
ھي تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر غیر ہاشمي ولا مولاہ مع قطع المنفعۃ عن المملّک من کل وجہ للّٰہ تعالی''.(تنویر الأبصار،کتاب الزکاۃ: ٢/٢٥٦،سعید)
''لو نوی الزکاۃ بما یدفع المعلم إلی الخلیفۃ ولم یستأجرہ،إن کان الخلیفۃ بحال لو لم یدفعہ یعلم الصبیان أیضاً أجزأہ وإلا فلا وکذا ما یدفعہ إلی الخدم من الرجال والنساء في الأعیاد وغیرھا بنیۃ الزکاۃ کذا في معراج الدرایۃ''. (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف:١/١٩٠، رشیدیۃ)
ولا تدفع إلی بني ھاشم؛ لقولہ علیہ السلام: یا بنی ھاشم! إن اﷲ قد حرم علیکم غسالۃ الناس وأوساخھم.(الھدایۃ،کتاب الزکاۃ، باب من یجوز دفع الصدقات إلیہ ومن لا یجوز: ١/٢٠٦، شرکۃ علمیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer