کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ حدیث شریف کے مطابق ایک بار سبحان اﷲ کہنے سے جنت میں ایک بڑا درخت لگ جاتا ہے، جس کے سایہ میں عربی نسل کا بہترین گھوڑا ایک سو سال یا پانچ سو سال تک بھاگتا رہے تو بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو ۔''اوکما قال رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم.''
اس سلسلے میں شیطانی وساوس آتے ہیں کہ ایک جتنی کی جنت کتنی بڑی ہو گی اور یہ کہ اتنے درخت کس کام میں آئیں گے؟ اور یہ جو دعا میں سوال کیا جاتا ہے کہ رب کریم ہمیں جنت میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا پڑوس نصیب فرما، دنیا میں تو پڑوسی قریب کے گھر والو ں کوکہتے ہیں،اس کی وضاحت فرمائیں ۔
جنت ہر ایک کے لیے اپنے اپنے اعمال کے مطابق بڑی ہو گی اور اعمال کے مطابق جنت میں درجات ہوں گے، جنت کی چوڑائی لمبائی اور بڑائی کی حیثیت سے یہ درخت کوئی زیادہ نہیں، وہاں کی وسعت میں اتنی راحت اور دل فریبی ہو گی کہ وہاں پہنچ کر حسرت ہو گی کہ ہم نےاعمال میں زیادتی کرکے مزید درجات کیوں حاصل نہ کیے، اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو انعام میں دیے گئے درخت ایسے ہرگزنہ ہوں گے کہ زائد یا بیکار معلوم ہوں، ان کی دل کشی اگر آج کسی کو معلوم ہو جائے تو ہر گزا سے وسوسہ نہ آئے، باقی بڑے بڑے گھروں والے پڑوسی بھی تو ہوتے ہیں، پھر جنت میں اتنی تیز رفتار سواریاں میسر ہوں گی کہ پلک جھپکنے میں طویل وعریض فاصلے کرکے جنتی کو وہاں پہنچا دیں گی جہاں وہ پہنچناچاہتا ہے،باقی رہی یہ بات کہ نبی صلی اﷲ علیہ سلم کی ساتھ ہونے کا یاان کا پڑوسی ہونے کا کیا مطلب ہے؟ ان کے ساتھ ہونے کا مطلب ان کا دیدار وقرب حاصل ہوتاہے، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی معیت میں ان کی منزلوں ودرجوں میں رہنا، او ران کے ساتھ کسی موقع پر باغیچوں میں جمع ہونا، جیسے کہ قرآن کریم اور اس کی تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے،ترجمہ: او رجو اﷲ اور سول کی اطاعت کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اﷲ تعالیٰ نے انعام فرمایا ،یعنی انبیاء علیہ السلام صدیقین اور شہداء اور صالحین۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں:
ترجمہ:” انصار میں سے ایک شخص رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا او رکہا کہ ہم آپ کے پاس صبح وشام آتے رہتے ہیں، آپ کے روئے مبارک کی زیارت کرتے ہیں، آپ کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ کل کو قیامت کے دن آپ نبیوں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے تو ہم آپ کے قریب نہیں پہنچ سکیں گے، تو آپ نے کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ جبرائیل علیہ السلام مذکورہ آیت لے کر تشریف لائے اور تفسیر ابن کثیر میں آیۃ مبارکہ کے تحت ہے،ترجمہ:” اونچے درجات والے نیچے والوں کے پاس آئیں گے پھر کسی باغیچہ میں سب ایک ساتھ جمع ہو جائیں گے۔
''عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ أَہْلَ الْجَنَّۃِ لَیَتَرَاء َوْنَ أَہْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِہِمْ، کَمَا تَتَرَاء َوْنَ الْکَوْکَبَ الدُّرِّیَّ الْغَابِرَ مِنَ الْأُفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ أَوِ الْمَغْرِبِ، لِتَفَاضُلِ مَا بَیْنَہُمْ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللہِ تِلْکَ مَنَازِلُ الْأَنْبِیَاء ِ لَا یَبْلُغُہَا غَیْرُہُمْ، قَالَ بَلَی، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ رِجَالٌ آمَنُوا بِاللہِ وَصَدَّقُوا الْمُرْسَلِینَ.''
''عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فِی الْجَنَّۃِ مائۃُ درجۃٍ مَا بینَ کلِّ دَرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَاء ِ وَالْأَرْضِ وَالْفِرْدَوْسُ أَعْلَاہَا دَرَجَۃً مِنْہَا تُفَجَّرُ أَنْہَارُ الْجَنَّۃِ الْأَرْبَعَۃُ وَمِنْ فَوْقِہَا یَکُونُ الْعَرْشُ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّہَ فَاسْأَلُوہُ الْفِرْدَوْسَ.'' (مشکوٰۃ المصابیح، باب صفۃ الجنۃ، ٤٩٦/٢، قدیمی)
'' قَالَ اﷲ تعالی:وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَداء ِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولئِکَ رَفِیقاً. أَیْ مَنْ عمل بما أمرہ اللہ بہ وَتَرَکَ مَا نَہَاہُ اللَّہُ عَنْہُ وَرَسُولُہُ فَإِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ یُسْکِنُہُ دَارَ کَرَامَتِہِ وَیَجْعَلُہُ مُرَافِقًا لِلْأَنْبِیَاء ِ ثُمَّ لِمَنْ بَعْدَہُمْ فِی الرُّتْبَۃِ وہم الصدیقون، ثم الشہداء والصالحون الَّذِینَ صَلُحَتْ سَرَائِرُہُمْ وَعَلَانِیَتُہُمْ ثُمَّ أَثْنَی عَلَیْہِمْ تَعَالَی فَقَالَ: ''وَحَسُنَ أُولئِکَ رَفِیقاً''.
وَقَالَ الْبُخَارِیُّ:۔۔۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اﷲ تعالی عنہا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ''مَا مِنْ نَبِیٍّ یَمْرَضُ إِلَّا خُیِّرَ بَیْنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ'' وکان فی شکواہ التی قبض فیہا أخذتہ بُحَّۃٌ شَدِیدَۃٌ فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: ''مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاء ِ وَالصَّالِحِینَ فَعَلِمْتُ أَنَّہُ خُیِّرَ.'' (تفسیر ابن کثیر، سورۃ النسآئ:٦٩ظ٦٩٤/١، دارالفجا).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی