کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میری ماہانہ آمدن 9 ہزار روپے ہے جس میں سے ماہانہ کرایہ/4800 روپے لگتا ہے اور باقی/4200 بچ جاتے ہیں اور میرے والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے اور میری والدہ کی پنشن /13000 روپے ہے ،اس طرح ہم دونوں کی ماہانہ آمدن /17000روپے بنتی ہے جس میں گیس کابل، بجلی کا بل،پانی کا بل، بلڈنگ مٹیریل قسطوں پر لیا ہے، اس کی قسط،گھر کا سودا ،دوائی وغیرہ یہ سب ملا کر ہمارے پاس ایک روپیہ بھی نہیں بچتا کہ ہم کوئی اور چیز خرید سکیں، ابھی گھرکی تعمیر باقی ہے کھڑکیا ں ، دروازے، شادی وغیرہ اس کا الگ خرچہ ہے اور صورت حال یہ ہے کہ ہمیں بچت ایک روپے کی بھی نہیں ہوئی، اگر موجودہ نوکری چھوڑ دی تو اور ملنا بہت مشکل ہے ،تو اس صورت حال میں ہم زکوۃ لے سکتے ہیں،یا نہیں ؟ براہ مہربانی تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔
واضح رہے کہ عاقل بالغ غیر سید مسلمان کی ملکیت میں سونا، چاندی، نقد مال ، مال تجارت اور ضرورت سے زائد سامان ہو یا ان میں سے ایک دو چیزیں ہوں اور ان کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو جائے، تو اس کے لئے زکوۃ لینا جا ئز نہیں ہے،ور نہ جائز ہے، اور جواز کی صورت میں بھی از خود نہ مانگیں، کوئی دے دے، تو لے سکتے ہیں۔
لمافی الدر : (و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان..
وفی الشامیۃ تحتہ: (قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها. (الدر المختار مع رد المحتار: 347/2، ط: دار الفکر).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 176/172