رفاہی اداروں اور مساجد کے لیے چندہ دینے کا حکم

رفاہی اداروں اور مساجد کے لیے چندہ دینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جو چندہ مانگنے والے آتے ہیں، مثلاً:رفاہی ادارے  یا اسی طرح مسجد کی تعمیرات کے لیے جو ادارے والے آتے ہیں، ان کو پیسے دینا ٹھیک ہے یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر دینے والا اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرنا چاہتا ہے، تو مساجد کے لیے زکوٰۃ کا مال دینا جائز نہیں ہے، البتہ رفاہی اداروں کے بارے میں اگر یہ معلوم ہو کہ وہ واقعتاً ان پیسوں کو مستحقین تک پہنچاتے ہیں، کسی اور کام میں نہیں لگاتے، تو ان کو وکیل بنا کر زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
اور اگر دینے والا اللہ تعالیٰ کے نام پر بطورِ صدقہ اور عطیہ رقم دینا چاہتا ہے، جس کی فضیلت احادیث مبارکہ میں بکثرت وارد ہوئی ہے، تو مساجد کے لیے دینا جائز ہے اور رفاہی اداروں میں سے جو ادارے معتمد ہوں اور واقعتاً غریبوں کی امداد میں رقم خرچ کرتے ہوں، تو ان کو بھی دینا جائز ہے۔
اور جو عام مانگنے والے آتے ہیں، ان میں جو واقعتاً مستحق نظر آرہے ہوں، ان کو صدقات دیے جاسکتے ہیں، جو پیشہ ور بھکاری ہوں، ان کو دینا صحیح نہیں البتہ زکوٰۃ کی رقم احتیاطاً ان کو نہ دی جائے۔
لما في صحیح البخاري:
’’حدثنا أبو ھریرۃ رضي اللہ عنہ، قال: جاء رجل إلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم ،فقال: یارسول اللہ! أي الصدقۃ اعظم أجراً؟ قال: أن تصدق وأنت صحیح شحیح، تخشی الفقر، وتأمل الغنی، ولا تمھل حتی إذا بلغت الحلقوم‘‘. (کتاب الزکاۃ: باب أي الصدقۃ أفضل: 191/1، قدیمی)
وفي مشکاۃ المصابیح:
’’وعن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ طیب لایقبل إلا طیبا وإن اللہ أمر المؤمنین بما أمر بہ المرسلین ،فقال:«یا أیھا الرسل کلوا من الطیبات واعملو صالحا»، وقال:«یا أیھا الذین آمنوا کلوا من طیبات ما رزقناکم» إلخ‘‘. (کتاب البیوع، باب الکسب، رقم الحدیث:2760، دارالکتب).
لما في الھندیۃ:
’’ولایجوز أن یبني بالزکاۃ المسجد، وکذا القناطر والسقایات، وإصلاح الطرقات، وکري الأنھار، والحج، والجھاد، وکل مالاتملیک فیہ، ولایجوز أن یکفن بہا میت ولایقضی بہا دین المیت، کذا في التبیین‘‘. (کتاب الزکاۃ، الباب السبابع في المصارف، دارالفکر).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:30/ 177