کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ داخلہ فارم میں کس جملے کا اضافہ کردیاجائے تاکہ انتظامیہ طلبہ کی جانب سے قبض زکوۃ پر وکیل بن جائے، جس سے معطین کی شعبہ حسابات میں رقم جمع کرنے سے زکوۃ ادا ہوجائے؟
طلباء سے توکیل کرائی جائے، اس کی صورت یہ ہے کہ مدرسے کے داخلہ فارم پر یہ عبارت درج ہو کہ میں منتظمین مدرسہ کو بحیثیت وکیل یہ اختیار دیتا ہوں کہ وہ زکوۃ اور عطیات وغیرہ کی رقوم میرے لیے وصول کر کے طلباء کے رہنے ، کھانے اور دیگر ضروریات مدرسہ میں خرچ کریں، فارم پڑھنے کے بعد بچہ یا اس کا ولی دستخط کرلے، تو اس صورت میں منتظم مدرسہ وکیل بالقبض والصرف شمار ہوگا، جس کی وجہ سے منتظمین مدرسہ اموال زکوۃ کو ضروریات مدرسہ میں خرچ کرنےکےمجاز ہوں گے۔لما في الدر المختار:
’’ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كمامر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجدو) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه).... وقدمنا أن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء، وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره، والظاهر نعم‘‘.(كتاب الزكاة، باب المصرف: 3/ 341-344:رشيدية).
في الهندية:
’’وكذلك في جميع أبواب البر التي لا يقع بها التمليك كعمارة المساجد وبناء القناطر والرباطات، لا يجوز صرف الزكاة إلى هذه الوجوه، والحيلة: أن يتصدق بمقدار زكوتہ على فقير، ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه، فيكون للمتصدق ثواب الصدقة ولذالك الفقير ثواب بناء المسجد والقنطرة‘‘.(كتاب الحىيل، الفصل الرابع في الزكاة: 359/6:دار الفكر)
وفي البحر الرائق:
’’والحيلة في الجواز في هذه الأربعة أن يتصدق بمقدار زكاته على فقير ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه، فيكون لصاحب المال ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب‘‘. (كتاب الزكاة، باب المصرف: 424/2: رشيدية)
وفي المحيط:
’’فنقول مذهب علماؤنا.... أن كل حيلة يحتال بها الرجل، ليتخلص بها عن الحرام أو ليتوصل بها إلى حلال، فهي حسنة‘‘. (كتاب الحيل، جواز الحيل وعدمها: 68/21، مكتبة إدارة القرأن).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/127