جنگلات سے حاصل شدہ سلاجیت میں خمس؟اور حاصل شدہ آمدنی میں زکوٰۃحکم

جنگلات سے حاصل شدہ سلاجیت میں خمس؟اور حاصل شدہ آمدنی میں زکوٰۃحکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے جنگلات پر حکومت کی طرف سے کوئی ٹیکس وغیرہ نہیں ہے، نہ ہی کسی کا قبضہ ہے، لوگ آپس میں باہمی مشورہ کے ساتھ اپنے متصل جنگلات کو استعمال کرتے ہیں،ان جنگلات کے بعض پہاڑوں میں سلاجیت ملتی ہے، جس کی حقیقت صحیح طور پر اب تک کسی کو معلوم نہیں ہوئی کہ یہ کیا چیز ہے؟ اور یہ پتھر نما ہوتی ہے، پگھلانے سے پگھلتی ہے، صاف کرنے کے بعد خالص سلاجیت تقریبا 50ہزار تک کلو بکتی ہے، اس پر زکوۃ ہے یا خمس یا کچھ بھی نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

سلاجیت کے متعلق معلوم ہوا کہ یہ پہاڑوں میں پتھروں کے بیچ اور سوراخوں میں قدرتی طور پر پیدا ہوتی ہے، نیز گرم پانی میں ڈالنے سے خود بخود گل جاتی ہے، لہذا اس میں خمس لازم نہیں، اور نہ ہی زکوۃ لازم ہے، البتہ بیچنے کے بعد اس کی قیمت اگر سونے یا چاندی کے نصاب تک پہنچ جاتی ہے، تو سال گزرنے کے بعد اس قیمت پر ڈھائی فیصد زکوۃ واجب ہے اور اگر پہلے سے صاحب نصاب ہے تو دوسرے مال کے ساتھ اس کی بھی زکوۃ ادا کرے گا۔
لما في فتح القدیر:
’’وکذا في قصب السکر وما یوجد في الجبال من العسل والثمار ففیہ العشر.وقال ابن الھمام رحمہ اللہ: وإلا فالسکر نفسہ لیس مال الزکاۃ إلا إذا أعد للتجارۃ وحینئذ یعتبر أن تبلغ قیمتہ نصابا...... قولہ أن المقصود حاصل وھو الخارج فلا یلتفت إلی کونہ مالکا للأرض أو غیر مالک‘‘.(کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الزروع والثمار: ٢/ ٢٥٦، ٢٥٥، قدیمي).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:18/ 176