کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ۱۔ آج کل شادیوں میں یہ رواج عام ہے کہ رات کو گانے بجانے ہوتے ہیں اور صبح کو ولیمہ ہوتا ہے کیا اس میں شرکت کرنا جائز ہے؟ بعض لوگوں سے سنا ہے کہ یہ کھانا حرام ہے کیا یہ بات درست ہے؟
۲۔ نکاح سے پہلے ولیمہ کرنا جائز ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔
۱۔ ولیمہ کی مجلس میں اگر مذکورہ خرافات ہوں، تو اس میں شریک ہونا جائز نہیں، بصورت دیگر شرکت کی گنجائش ہے، لیکن نہ کرنا بہتر ہے۔
۲۔ وہ دعوت جو نکاح اور رخصتی کے بعد ہوتی ہے، اس کو ولیمہ کہا جاتا ہے، لہٰذا نکاح سے پہلے دعوت کو شرعًا ولیمہ نہیں کہا جائے گا۔
لمافي الهندية:
«ولو دعي إلى دعوة، والواجب أن يجيبه إلى ذلك وإنما يجب عليه أن يجيبه إذا لم يكن هناك معصية، ولا بدعة، وإن لم يجب كان عاصيًا.
وفيه أيضًا:
«من دعي إلى وليمة، فوجد ثمة لعبا أو غناء، فلا بأس أن يقعد ويأكل، فإن قدر على المنع يمنعهم، وإن لم يقد يصبر، وهذا إذا لم يكن مقتدى به، أما إذا كان ولم يقدر على منعهم، فإنه يخرج ولا يقعد، ولو كان ذلك على المائدة، لا ينبغي أن يقعد، وإن لم يكن مقتدى به...».(كتاب الكراهية: 5/397-398، دار الفكر)
وفي مرقاة المفاتيح:
3211 وعنه قال: ما أولم رسول الله صلي الله عليه وسلم على أحد من نسائه ما أولم على زينب، أولم بشاة، متفق عليه.وقوله: أولم بشاة أي: اتخذ وليمة، قال ابن الملك: تمسك بظاهره من ذهب إلى إيجابها، والأكثر على أن الأمر للندب، قيل: إنها تكون بعد الدخول وقيل عند العقد، وقيل: عندها».(كتاب النكاح، باب الوليمة: 6/366، رشيدية).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر: 154/139،141