ٹوپی، عمامہ اور عمامہ کے رنگوں کے متعلق تحقیق

 ٹوپی، عمامہ اور عمامہ کے رنگوں کے متعلق تحقیق

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا ٹوپی اور عمامہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں یا نہیں؟ اور عمامہ کا کون سا رنگ ثابت ہے؟ اور کیا عمامہ کے ساتھ نماز پڑھنا بدون عمامہ کے افضل ہے؟

جواب

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹوپی اور عمامہ دونوں کا پہننا ثابت ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمامہ کا رنگ کون سا تھا، اس کے متعلق احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ، زرد اور سرخ عمامہ پہنا ہے، ان کے علاوہ دیگر رنگوں کا پہننا ثابت نہیں، اور سفید رنگ کے عمامہ کے متعلق احادیث میں کوئی صحیح روایت نہیں ملی، البتہ سفید رنگ کے عمامہ کے متعلق تائید وارد ہوئی ہے، جیسا کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ سریہ پر جارہے تھے، ان کے سر پر سیاہ عمامہ بندھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا سیاہ عمامہ اتار کر ان کو سفید عمامہ پہنایا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑوں میں سفید رنگ زیادہ پسند تھا، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سفید رنگ کا عمامہ پہننا بھی بہتر ہے، نیز عمامہ کے ساتھ نماز پڑھنا بغیر عمامہ کے نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
لما في جمع الوسائل:
’’أخرج مسلم من طریق أبي أسامۃ عن مساور، قال: حدثني جعفر بن عمرو بن حریث عن أبیہ، قال: کأني أنظر إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی المنبر وعلیہ عمامۃ سوداء، قد أرخی طرفیھا بین کتفیہ‘‘.(باب ما جاء في عمامۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ٢٠٥: رشیدیۃ)
وفیہ أیضا:
’’وروي عن ابن عباس  رضي اللہ عنہما أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کان یلبس القلانس تحت العمائم، ویلبس العمائم بغیر القلانس، قال الجوزي: قال بعض العلماء: السنۃ أن یلبس القلنسوۃ والعمائم‘‘.(باب ما جاء في عمامۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ٢٠٧:رشیدیۃ)
وفي تاریخ مدینۃ دمشق لابن عساکر:
’’عن الزھري عن سعید بن المسیب عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ قال: خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعلیہ قمیص أصفر ورداء أصفر وعمامۃ صفراء‘‘.(٣٨١٤، عبد الرحمن بن سعد الخیر أبو القاسم الحمصي: ٣٤/ ٣٨٤- ٣٨٥:دار الفکر)
وفي سنن أبي داود:
’’عن ابن عباس رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: البسوا من ثیابکم البیاض، فإنھا من خیر ثیابکم، وکفنوا فیھا موتاکم وإن خیر أکحالکم الإثمد: یجلو البصر وینبت الشعر‘‘.(باب في البیاض، رقم الحدیث: ٤٠٦١، ص: ٥٧٣:دار السلام للنشر والتوزیع).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/194