کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی کے بنک میں روپے جمع ہیں، سال کے بعد وہ آدمی اپنی جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ خود ادا کرتا ہے کیوںکہ وہ بینک کی کاٹی ہوئی زکوٰۃ کو خلافِ شرع سمجھتا ہے۔ مگر سال کے بعد بنک نے سرکاری قانون کے مطابق اس کی رقم پر سو روپیہ زکوٰۃ کاٹ لی اور بینک کے قوانین کے تحت سو روپے سود اس کے کھاتہ میں جمع کر دیا۔ اس طرح اس کا کھاتہ برابر رہا، کیا اس کے کھاتہ میں زکوٰۃ کی کٹوتی اور سود کی رقم جمع کرنا اس پر تو کوئی گناہ نہیں، کیوں کہ اس کا کھاتہ تو برابر رہا۔
بینک کے زکوٰۃ کاٹنے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنے کی ضروت نہیں رہتی ہے، لہٰذا آپ زکوٰۃ دوبارہ ادا نہ کریں اور سود کے پیسے کو اولاً تو وصول ہی نہ کریں، اگر وصول کیے بغیر چارہ نہ ہو تو لے کر بغیر صدقہ کے ثواب کی نیت کے کسی فقیر کو دے دیں۔
نوٹ:بینک اکاؤنٹ میں رقم اب اموال ظاہرہ کے حکم میں ہے، اموال ظاہرہ کی زکوٰۃ حکومت لے سکتی ہے۔
لیاخذ الصدقات۔۔۔۔ من التجار۔۔۔ المارین بأموالھم۔۔۔ الظاہرۃ والباطنۃ علیہ.
في الرد:(قولہ: الظاہرۃ والباطنۃ) فإن مال الزکاۃ نوعان: ظاہر، وہو المواشی، وما یمر بہ التاجر علی العاشر، وباطن: وہو الذہب والفضۃ، وأموال التجارۃ في مواضعہا بحر ومرادہ ہنا بالباطنۃ ما عدا المواشی بقرینۃ قولہم المارین.( رد المحتار، کتاب الزکاۃ باب العاشر ٢/٣١٠، سعید)
وحاصلہ أن مال الزکاۃ نوعان ظاہر، وہو المواشی، والمال الذی یمر بہ التاجر علی العاشر، وباطن، وہو الذہب والفضۃ وأموال التجارۃ في مواضعہا أما الظاہر فللإمام ونوابہ، وہم المصدقون من السعاۃ والعشار ولایۃ الأخذ للآیۃ (خذ من أموالہم صدقۃ) (التوبۃ١٠٣) ولجعلہ للعاملین علیہا حقا فلو لم یکن للإمام مطالبتہم لم یکن لہ وجہ،(البحر الرائق، کتاب الزکاۃ، باب العاشر٢/٤٠٣، رشیدیۃ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی