ایک شریک کا شرکت ختم کرنے کے بعد نفع میں شرکت کامطالبہ کرنا

ایک شریک کا شرکت ختم کرنے کے بعد نفع میں شرکت کامطالبہ کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے ایک پراپرٹی والے کو شراکت کی خاطر ایک کروڑ تیس لاکھ روپے دیے، پراپرٹی والے نے ایک زمین 47000 ہزار مربع فٹ (فی فٹ900 روپے)خرید لی، جس کی کل مالیت چارکروڑ تئیس لاکھ روپے بنتی تھی، پراپرٹی والے نے زمین مالک سے معاہدہ کیا کہ آپ کی بقیہ رقم آٹھ ماہ کے اندر اندر ادا کردوں گا۔
پراپرٹی والے نے جہاں زمین خریدی ،زمین کی تمام کیفیت وکمیت سے اپنے شریک کو آگاہ کیا، نیز پراپرٹی والے نے اس زمین کو قابلِ فروخت بنانے کی خاطر اسکیم نقشہ کے مطابق اس پر اپنی جیب سے چونتیس لاکھ روپے مزید خرچہ بھی کیا، لیکن چند یوم گزرجانے کے بعد اس شخص نے شراکت ختم کی اور وجہ یہ بتائی کہ مجھے یہ زمین پسند نہیں ہے، لہٰذا مجھے میرا پیسہ واپس دے دو، تو پراپرٹی والے نے جس سے زمین خریدی تھی نصف زمین اسے واپس کردی، کیونکہ حسب معاہدہ زمین مالک کا پیسہ دینا تھا، اور ادھر شریک شراکت کو ختم کر کے اپنا پیسہ مانگ رہا تھا تو اس دباؤ سے نکلنے کی خاطر اس نے آدھی زمین واپس کردی اور آدھی رکھ لی۔
جس شخص نے شراکت ختم کی پراپرٹی والے نے اس سے کہا :
کہ اس وقت یکمشت میرے پاس دینے کو پیسہ نہیں لہٰذا تھوڑا تھوڑا کر کے آپ کو آپ کا حق دے کر فارغ کردوں گا۔
میری جو دکانیں اور فلیٹ ہیں اپنے پیسوں کے عوض میں جہاں تجھے پسند ہوں لے لو، تو اس نے یہ پیشکش بھی قبول نہیں کی اور صرف اپنے پیسوں کا مطالبہ کیا۔
چنانچہ پراپرٹی والے نے بعد ازاں مختلف اوقات میں اسے رقم ادا کی اور تقریبا ایک کروڑ پندرہ لاکھ روپے شریک نے وصول کیے، آخری پندرہ لاکھ جب بقایا رہ گئے تو اس نے جھگڑا شروع کیا کہ تم پراپرٹی والے نے اس آدھی زمین سے جتنا منافع حاصل کیا ہے اس سے بھی مجھے باقاعدہ حصہ دے دو۔
اب ازروئے شریعت پوچھنا یہ ہے کہ اس شخص نےجس نے شروع ہی میں شراکت کو ختم کیا اور اپنی رقم بھی وصول کرتا رہا اب اس زمین کے حاصل شدہ منافع میں اس کا شرعی حق بنتا ہے یا نہیں؟ نیز اس کا دعویٰ ہے کہ تم نے چونکہ مجھے یکمشت پیسہ نہیں دیا لہٰذا اس لیے اس میں میرا حق بنتا ہے، آیا اس کی یہ دلیل معتبر ہے یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص (جس نے شراکت ختم کی) کو شرعا یہ حق نہیں ہے کہ مذکورہ زمین کے منافع میں حصے کا مطالبہ کرے۔
لما في التنویر مع الدر:
’’(و) تبطل أیضاً (بإنکارھا) وبقولہ: لاأعمل معک فتح (وبفسخ أحدھما) ولو المال عروضا بخلاف المضاربۃ ھو المختار بزازیۃ خلافا للزیلعي ویتوقف علی علم الآخر؛ لأنہ عزل قصدي‘‘.
’’قولہ: (وبقولہ لا أعمل معک) ھذا في المعنیٰ فسخ، فکان الأولیٰ تأخیرہ عن قولہ ویفسخ أحدھما وفي البحر عن البزازیۃ اشترکا واشتریا أمتعۃ ثم قال: أحدھما لا أعمل معک بالشرکۃ وغاب فباع الحاضر الأمتعۃ، فالحاصل للبائع وعلیہ قیمۃ المتاع؛ لأن قولہ لا أعمل معک فسخ للشرکۃ معہ وأحدھما یملک فسخھا وإن کان المال عروضا بخلاف المضاربۃ ھو المختار‘‘. (کتاب الشرکۃ:500/6، رشیدیۃ)
وفي التاتارخانیۃ:
’’سئل أبوبکر الإسکاف عن رجلین اشترکا فشتریا أمتعۃ ثم قال: أحدھما للشریک: لاأعمل معک بالشرکۃ، ولم یقسم شیئا وغاب وعمل الحاضر وربح؟ قال: فھو لہ ، وضمن لصاحبہ قیمۃ نصیبہ‘‘. (کتاب الشرکۃ: 514/7، فاروقیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:178/322