کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ خالد کے پاس دس لاکھ روپے تھے، خالد نے وہ رقم ایام حج میں زید کو قرض دے دی ،اب خالد کے پاس اس واجب الوصول قرض کے سوا کوئی رقم نہیں، اور زید کے ذمہ واپسی بھی ان ایام کے بعد ہے۔ کیا خالد پر اس سال حج فرض ہوگا؟ علی الفور ہوگا یا واجب فی الذمہ؟
خالد کے ذمہ حج علی الفور ہے، کیوں کہ قرضہ کی ادائیگی کی تاریخ متعین کرنے سے شرعا متعین نہیں ہوتی، متعینہ وقت سے پہلے کیا جاسکتا ہے، اگر قرضہ مطالبہ کے باجود نہ ملے، تو خالد سرمایہ جمع کرے، یا ادھار لے اور حج ادا کرے، کیوں کہ اس نے قرضہ ایام حج میں دیا تھا، جو کہ حج کے علاوہ کسی اور مصرف میں خرچ کرنا درست نہیں تھا۔لما في شرح المجلة:
’’إن اجتمعا [المباشر و المتسبب].... يضاف الحكم إلى المباشر‘‘. (المادة:90، 249/1: رشيدية)
وفي البحر العميق:
’’وتعتبر القدرة على الزاد والراحلة عند خروج أهل بلده... ولو تصرف فيه بعد خروج أهل بلده لا يسقط عنه الحج، ويكون دينا في ذمته....وإذا جاء وقت الحج فعليه الحج، وليس له أن يصرف ذلك إلى غيره‘‘.(الباب الثالث: 381/1: مؤسسة الرسالة)
وفي التنوير مع الدر:
(فرض مرة على الفور) في العام الأول عند الثاني، وأصح الروايتين عن الإمام ومالك وأحمد. (كتاب الحج:5/ 517-520: رشيدية)
وفي رد المحتار:
’’لزم تأجيل كل دين إلا القرض‘‘. (كتاب البيوع، فصل في القرض:406/7:رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/95