کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص علی الاعلان آفس میں کہہ رہا تھا کہ ڈھائی فی صد زکوٰۃ کی رقم جو کاٹی جارہی ہے یہ غلط ہے، یہ علماء کرام کے فتوی کی وجہ سے ہے انہوں نے اپنی مرضی سے ڈھائی فیصد رقم مقرر کی ہے، اس شخص نے کہا کہ جو کھانے سے بچ جائے، سب زکوٰۃ میں دے دو، اس شخص سے کہا گیا کہ اس قت پوری دنیا میں ڈھائی فی صد جہاں جہاں لوگ زکوٰۃ ادا کررہے ہیں کیا غلط ہے؟ تو اس نے کہا ہاں۔
آپ سے عرض ہے کہ ڈھائی فی صد کا معاملہ قرآن کی روشنی میں حل فرمائیں، زکوٰۃ کا معاملہ تو قرآن کی نص سے ثابت ہے، اس لیے ڈھائی فیصد شرح زکوٰۃ کے ترجمہ والی آیت لکھ کر مرحمت فرما دیں،عین نوازش ہو گی۔
قرآن مجید عمومی اور کلی قوانین کی کتاب ہے، اس میں اﷲ تعالیٰ نے جو احکامات بیان فرمائے وہ اجمالاً بیان فرمائے ہیں، ان کی تشریح وتفیسر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمائی،نماز ہی کو لے لیجیے کہ پورے قرآن مجید میں آپ کو نماز کا حکم ”وأقیموا الصلوٰۃ” اور نماز قائم کرو تو مل جائے گا ،لیکن فجر کی کتنی رکعتیں ہیں؟ ظہر کی کتنی رکعتیں ہیں؟ اسی طرح باقی نمازوں کی تعداد رکعت کہیں نہیں ملے گی، ہاں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بحکم خدا وندی ان کی تعداد متعین فرما دی۔
اسی طرح زکوٰۃ کا مسئلہ کہ ”واٰتوا الزکاۃ”اور زکوۃ ادا کیا کرو ، یہ حکم تو قرآن میں مل جائے گا لیکن کتنی مقدار پر نکالنی ہے او رکتنے فیصد نکالنی ہے اس کو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمایا جو مندرجہ ذیل احادیث سے واضح ہے:''عن علي رضي اﷲ تعالیٰ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لیس في تسعین ومائۃ درہم زکاۃ إلا أن یشاء صاحبہا، وإذا تمت مائتي درہم ففیہا خمسۃ دراہم، فإذا زادت فعلی نحو ذلک.(رواہ الدار قطني: ٢/٢٩)
عن علي رضي اﷲ تعالی عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، إني قد عفوت عنکم عن صدقۃ الخیل والرقیق، ولکن ھاتوا ربع العشر من کل أربعین درھما درھما.(رواہ ابن ماجہ: ١/١٢٨)
عن المالکي، قال: قال رجل لعمران بن حصین: یا أبا نجید، إنکم لتحدثوننا بأحادیث ما نجد لہا أصلا في القرآن، فغضب عمران، وقال للرجل: أوجدتم في کل أربعین درہما درہم، ومن کل کذا وکذا شاۃ شاۃ، ومن کل کذا وکذا بعیرا کذا وکذا، أوجدتم ہذا في القرآن؟ قال: لا، قال: فعمن أخذتم ہذا؟ أخذتموہ عنا، وأخذناہ عن نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، وذکر أشیاء نحو ہذا. (رواہ أبوداؤد،ج١،ص٢١٧)
مذکورہ بالا تین احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ ہر دو سو درھم پر پانچ درھم زکاۃ واجب ہے، لہذاایک سو درھم پر ڈھائی درھم یعنی ڈھائی فیصد واجب ہوگی، یہ محض علمائے کرام کا فتوی نہیں بلکہ حدیث سے ثابت ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی