کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ صدقہ فطر واجب ہے اوراسی طرح زکوٰۃ فرض ہے، جو شخص پیش امام ہو تو اس صورت میں وہ لوگ جو بالکل بے نمازی ہیں۔ اسی طرح روزہ نہیں رکھتے،تو یہ لوگ اپنے زکوٰۃ وصدقہئ فطر امام کو دیتے ہیں، تو کیا امام کے لیے اس کا لینا او رکھانا جائز ہے یا نہیں؟
زکوٰۃ وفطرہ اورصدقات واجبہ بلا معاوضہ فقراء (یعنی جو صاحب نصاب نہ ہو ) کو دینا ضروری ہے،پس امام کو معاوضہ امامت میں دینا اوراس کو لینا درست نہیں ہے، یہ فقراء اور دوسرے مستحقین کا حق ہے، لہٰذا زکوٰۃ،فطرہ اور صدقات واجبہ معاوضہ میں دینا درست نہیں ہوگا،البتہ اگر یہ رقم مشاہرہ کے علاوہ الگ سے مستحقین اورمحتاج سمجھ کر دی جائے اور امام مستحق زکوٰۃ ہے تو درست ہے، اس صورت میں امام کو زکوٰۃ دینا درست ہے۔''لایجوز دفع الزکاۃ إلی من یملک نصابا أي مال کان. (الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف: ١/١٨٩، رشیدیۃ)
وفي التنویر: مع قطع المنفعۃ عن المملک من کل وجہ ﷲ تعالی. (تنویر الأبصار، کتاب الزکاۃ: ٢/٢٥٨، سعید)
''لایجوز دفع الزکاۃ إلی من یملک نصابا أي مال کان. (الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف: ١/١٨٩،رشیدیۃ)
''یجوز دفع الزکاۃ إلی من یملک دون النصاب ، وإن کان صحیحا مکتسبا، لأنہ فقیر. (الفقہ الحنفي وأدلتہ، کتاب الزکاۃ: ١/٣٥١، إدارۃ القرآن).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی