
الحمد للّٰہ و کفٰی و سلام علی عبادہ الذین اصطفی․
ایک اصولی حقیقت
یہ اصولی حقیقت سمجھ لینی ضروری ہے کہ عموماً تمام انواعِ احکام اور خصوصاً معاشرتی احکام میں ہر شرعی حکم کے نیچے اس کی کوئی نہ کوئی بنیادی علت ضرور ہوتی ہے، جو اس حکم کا منشا اور مدار ہوتی ہے اور اسی علت کی بنا پر وہ حکم شارعِ حقیقی کی طرف سے وضع کیا جاتا ہے، خواہ وہ علت نص وآیت وروایت کے الفاظ میں موجود ہو، جسے ہر کس وناکس دیکھ سکے یا معنی میں لپٹی ہو، جس تک صرف مجتہد اور راسخین فی العلم ہی کی نگاہ پہنچ سکتی ہو اور وہی اسے اندر سے نکال کر باہر نمایاں کر سکتے ہوں۔ بہر صورت حکم میں کسی نہ کسی علت کا ہونا ضروری ہے، جو نہ صرف مدارِ حکم ہوتی ہے، بلکہ حکم کی یہ صورت اسی مخفی اور بنیادی علت کے حصول کی ایک تدبیر ہوتی ہے۔ اگر مثبت حکم ہے، جسے امر کہتے ہیں، تو اس کے ذریعے اس علت کا استحکام ملحوظ ہوتا ہے اور اگر منفی حکم ہے جسے نہی کہتے ہیں تو اس زیرینہ علت کا دفعیہ پیشِ نظر ہوتا ہے۔ پس یہ حکم اپنی متعلقہ علت کے حصول یا دفعیہ کی ایک تدبیر ہوتا ہے، جس کا اصل مقصودِ اصلی رداً یا اثباتاًیہی علت ہوتی ہے، خود حکم بذاتہ مقصود نہیں ہوتا۔ اندریں صورت علت مرتفع ہو جانے پر حکم بھی مرتفع ہو جاتا ہے اور اس میں ضعف پیدا ہو جانے پر حکم میں شدت باقی نہیں رہتی۔
تصویر کی مثال
مثلاً ممنوعاتِ شرعیہ کے سلسلہ میں تصویر کی ممانعت ایک حکم شرعی ہے، جس کی بنیادی علت صورت پرستی اور حقیقت بیزاری کا انسداد ہے، جس کا نام شرک ہے۔ اسی سے بچنے کے لیے تصویر کی ممانعت کی گئی ہے، کیوں کہ تصویر ہی تاریخی طور پر ہمیشہ شرک وبت پرستی اور حقیقت بیزاری کی بنیاد ثابت ہوئی ہے۔ قوم نوح عملاً اس میں مبتلا تھی تو اس کے مٹانے کے لیے نوح علیہ السلام مبعوث ہوئے، قوم ابراہیم بت گر اور بت پرست تھی تو ابراہیم علیہ السلام بت شکن بن کر آئے۔ قومِ موسیٰ نے مصر سے ہجرت کرتے ہوئے صنعاء میں مورتی پو جا دیکھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خواہش کی کہ انہیں بھی ایسے ہی برنجی معبود بنا دیے جائیں تو انہوں نے سختی سے یہ کہہ کر جھڑ کا کہ: ﴿إِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُونَ﴾تم جاہلانہ باتیں کرتے ہو۔
ممانعت تصویر کا سبب
بہر حال تصویر کی ممانعت درحقیقت انسداد شرک کے لیے تھی۔ جہاں اور جس قوم میں اس کے جراثیم پائے گئے وہیں ان روحانی اطباء انبیاء علیہم السلام نے ان کا آپریشن کیا۔ شریعتِ اسلامیہ چوں کہ جامع، مکمل اور ابدی شریعت تھی، اس لیے اس نے وقوع شرک کا انتظار کیے بغیر اسباب شرک اور احتمال شرک پر بھی انسدادی احکام جاری کیے اور تصویر کی ممانعت، بلکہ استیصال میں بعید سے بعید احتمال کو بھی سامنے رکھا، مگر علت ممانعت وہی رذیلہ شرک اور اس کا انسداد رہا۔ پس ممانعت تصویر کا حکم در حقیقت علت شرک کے دفعیہ کی ایک تدبیر ہے، خود بذاتہ مقصود نہیں اور نہ ہی تصویر بذاتہ قبیح ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جہاں شرک کا کوئی واہمہ اور امکان نہ ہو وہاں یہ حکم ممانعت بھی باقی نہ رہے گا۔ عالم برزخ میں ملائکہ علیہم السلام میت سے سوال و جواب کرتے وقت بتصریح شراح حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر دکھلا کر سوال کریں گے کہ ”من ہذا الرجل؟“ یہ کون ہیں؟
ظاہر ہے کہ اُدھر تو ملائکہ علیہم السلام شرک کے واہمہ تک سے بری اور اِدھر میت کے حق میں بھی وہاں شرک کا کوئی امکان نہیں، جب کہ ہر دوفریق کو وہاں وحدانیت حق کا مشاہدہ حاصل ہے، اس لیے وہاں تصویر کی ممانعت بھی باقی نہ رہی۔ نیز بنص حدیث جنت کے بازاروں میں تصویریں بھی فروخت ہوں گی، جن کی قیمت ذکر اللہ ہو گا۔ ظاہر ہے کہ سارے اہل جنت اور ارباب کشف و شہود ہوں گے، جن میں شرک کا تخیل بھی ناممکن ہوگا۔ اس لیے وہاں ممانعت تصویر کا حکم بھی باقی نہ رہے گا۔ ورنہ جو چیز بذاتہ قبیح ہوگی وہ جیسے دنیا میں حرام ہوگی، جنت میں بھی حرام ہوگی، زنانہ یہاں جائز، نہ وہاں جائز، جھوٹ اور دنگا فسادنہ یہاں جائز، نہ وہاں جائز۔ فرق یہ ہے کہ یہاں اس سے بہ تکلف اور بزورِ عقل وہمت بچا جاتا ہے اور وہاں بداعیہ طبع ان امور سے نفرت ہوگی، بلکہ ان کا مادہ ہی دلوں سے ختم کر دیا جائے گا، اگر تصویر بذاتہ قبیح اور منکر ہوتی تو دنیا کی طرح جنت میں بھی اس کے وجود کو برداشت نہ کیا جاتا۔ اس سے واضح ہے کہ وہ صرف رذیلہٴ شرک سے بچانے کی ایک تدبیر ہے۔ جہاں اس رذیلہ کا وجود نہ ہو، جیسے عالم برزخ اور آخرت، وہاں اس تدبیر کی ضرورت بھی نہ ہوگی۔
خود شریعت اسلام نے شرک کے ریشے ختم کرنے کے لیے تصویر کی شدت سے ممانعت کی، مگر علتِ ممانعت وہی احتمال شرک قرار دیا ہے۔ اس لیے دنیا میں بھی جہاں جہاں شرک کا احتمال نہیں، وہاں یہ حکم ممانعت بھی نہیں۔ غیر ذی روح مثل مکان، درخت، سینری، دریا، پہاڑ وغیرہ کی تصویر عادةً شرک آموزی کے اثرات سے خالی ہے تو اس کی ممانعت بھی نہیں، پھر ذی روح افراد میں اگر سرکٹی تصویر ہو یا اتنا حصہ کٹا ہوا ہو جس کے کٹ جانے سے بحالت زندگی زندہ رہنا ممکن نہ ہو تو اس کی ممانعت بھی باقی نہیں رہتی کہ مقطوع الراس سرکٹی تصویر کی پوجا نہیں کی جاتی، یا پورے جسم ہی کی تصویر ہو، مگر چہرے پر قلم پھیر دیا جائے یا کوئی بھی توہین آمیز علامت بنا دی جائے، جس سے چہرے کے خدوخال میں فرق پڑ جائے تو پھر یہ پوری تصویر بھی ممنوع نہیں رہتی کہ یہ صورت توہینِ تصویر کی ہے، تعظیم تصویر کی نہیں ہے، جس سے شرک کی بنیاد پڑتی ہے، یا قلم نہ پھیرا جائے، مگر تصویر کو جوتوں کی جگہ قدموں میں ڈال دیا جائے، تو پھر حکم ممانعت اٹھ جاتا ہے، کیوں کہ تصویر کو پامال کرنے کے ساتھ شرک جمع نہیں ہو سکتا کہ یہ انتہائی تذلیل ہے اور شرک انتہائی تعظیم ہے، تو ضدین کیسے جمع ہوسکتی ہیں؟
اس سے واضح ہوتا ہے کہ تصویر خود بذاتہ ممنوع نہیں ہے، ورنہ برزخ، آخرت اور عالم دنیا میں تصویر اور اس کے مذکورہ افراد ہرگز مباح نہ قرار دیے جاتے، بلکہ اس کی ممانعت رذیلہ سے بچانے کی ایک تدبیر ہے، اس لیے وہ شرک کے امکانات ہی کے وقت رہے گی، ورنہ نہیں۔
تصویر اسلام کے آئینے میں
آج تصویر اور صورت سازی اپنے غیر معمولی شیوع کی بدولت موجودہ تمدن کا ایسا جزو لا ینفک بنی ہوئی ہے کہ اس کا کوئی شعبہ اپنی رونق کو تصویر کے بغیر قائم نہیں رکھ سکتا۔ مکان، دکان، خطوط، کتب، رسائل، سکہ، تمغہ، رقعہ، دستاویز، تلوار، ہتھیار، چھری، چمچہ، لیبل، مار کہ کوئی چیز نہ تصویر سے خالی ہے اور نہ بغیر تصویر کے اس میں کوئی جذب وکشش ہی محسوس کی جاتی ہے۔ پس جاذبیت کی ساری ہی طاقتیں آج تصویر کے ایک رخ میں پنہاں ہو چکی ہیں اور تقریباً دنیا کی ہر قوم، بلا استثنا، اپنی پوری ہی گرویدگی وشغف کے ساتھ تصویر کی طرف پروانہ وار دوڑتی چلی جارہی ہے۔
اقوام کے اس اجماع میں جو تصویر کے ساتھ فدائیت پر منعقد ہوچکا ہے ہم تصویر کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، بلا شبہ اس اجماع کے خلاف ہم ایک ایسے نظریہ کے ماتحت تصویر کو دیکھ رہے ہیں کہ اس کے ہوتے ہوئے تصویر نہ صرف بدترین منکر ہی دکھلائی دیتی ہے، جسے معروف کی لائن سے کوئی مناسبت نہیں، بلکہ ایسی مہلک اور مخرب دست کاری نظر آتی ہے جسے ایک مسلم کی مسلمانہ ذہنیت تبدیل کر دینے میں کافی مداخلت حاصل ہے۔
یہ ایک نا قابل انکار حقیقت ہے کہ ہر صورت اپنی حقیقت کا ظہور اور اس کے لیے تعارف کا ایک ذریعہ ہے، دنیائے صور واشکال میں کوئی حقیقت بغیر صورت کے شناسا نہیں ہوسکتی، پس صورت ایک درمیانی خادم ہے، جس کا منصبی فرض صرف حقیقت تک پہنچا دیتا ہے۔ اویس، زید اور عمر کی صورتیں، حیوانات اور نباتات کی ہیئتیں صرف اس قدر اہمیت رکھتی ہیں کہ دنیا کو اپنے باطنی حقائق سے شناسا بنا دیں، جس کے صاف معنی یہ نکل آتے ہیں کہ کوئی صورت بلا حقیقت یا بلا ترجمانی حقیقت در خور التفات ہی نہیں کہ صورتِ محض نہ بذاتہ مقصود ہے اور نہ مقصود یت کی شان رکھتی ہے۔
اس اصول پر یہ اندازہ لگا لینا مشکل نہیں کہ مقصود واقعی صرف حقیقت ہے،صورت نہیں۔ صورت وسائل تعارف میں سے ایک وسیلہ ہے۔ اگر بالفرض ہم بلا صورت ہی کسی حقیقت پہچاننے پر قادر ہو جائیں تو شاید پھر صورت کی طرف تھوڑے سے تھوڑا التفات بھی ہم پر شاق گذرنے لگے اور ہم اسے اضاعتِ وقت سمجھنے لگیں، اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صورتوں کی طرف توجہ کرنا فی الواقع حقیقت پر براہِ راست قدرت نہ پاسکنے کا ثمرہ اور ہمارے قصورِ ادراک کا نتیجہ ہے۔
مثلاً ہم تاج محل آگرہ کا اصلی نقشہ آنکھوں میں رکھنے کے لیے اس کی تصویر سامنے رکھ لیتے ہیں، لیکن اگر کسی ذریعہ سے ہم خود تاج محل کو یہاں اٹھا کر لا سکتے یا ہمہ اوقات ہر جگہ سے اسے دیکھتے رہنے کی قدرت رکھتے تو شاید ہمارا دھیان اس کاغذی تاج محل کی طرف کبھی بھی منعطف نہ ہوتا، اس لیے یہ نتیجہ صاف ہے کہ صورت وہیئت سامنے رکھنا اصل کی یاد آوری کا ایک ذریعہ اور ساتھ ہی صورتِ بین کے قصورِ ادراک کا ثمرہ ہے کہ وہ براہِ راست اصل حقیقت کو نہیں دیکھ سکتا۔
پس جب کہ ایک ایسی صورت بھی جو کسی واقعی حقیقت کا عنوان یا ترجمان بھی بنی ہوئی ہے، واسطہٴ محض سے زائد کوئی درجہ نہیں رکھتی تو وہ تصویر جو صورت ہی صورت کی ترجمانی کر رہی ہو اور حقیقت سے اس کا کوئی بھی واسطہ نہ ہو یا تصویر ہی فرضی ہو کہ نیچے کسی واقعی صورت کا بھی وجود نہ ہو، ظاہر ہے کہ وہ بے اصل محض، بے وزن اور بے التفاتِ محض ہونی چاہیے کہ وہ حقیقت کے بجائے باطل اور بے بنیاد شے یا لاشے کی ترجمانی کر رہی ہے۔ پھر بھی اگر ایسی بے بنیاد اور باطل صورتوں کو مرکز توجہ بنا لیا جائے تو یہ مقصد سے اعراض اور وسائل میں شغف کے سوا کون سے لفظ سے تعبیر کیا جائے گا؟ اور کون نہیں جانتا کہ مقصود کے ہوتے ہوئے صرف وسائل محض میں انہماک وشغف رکھنا یا بالفاظ دیگر اپنے قصورِ ادراک اور عجزِ تصور کو باجود ازالہٴ قدرت کے پالتے رہنا دانائی کے بجائے انتہائی سادہ لوحی، بلکہ اس سے آگے ہی کا کوئی درجہ ہے۔
بس اسی قلب موضوع سے کہ وسائل مقصود کا درجہ حاصل کر لیں اور خود مقصود غیر اہم ہو جائے، شرک فی المقصود کی بنیاد پڑتی ہے، جس کی ذمہ داری تنہا تصویر پر عائد ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ جب قلب، جو باطن اور غیبی امور میں منہمک ہو کر ذوقی مشاہدوں کا شائق بنایا گیا ہو، تصویر آرائی کے ذریعہ گرفتارِ صورت بنا دیا جائے تو اس کا نتیجہ بجز اس کے اور کیا نکل سکتا ہے کہ وہ اپنی جمعیت کھو کر کچھ باطن کا ہو رہے اور کچھ ظاہر کا ہو رہے، کچھ حقیقت کی طرف مائل ہو اور کچھ صورت کی طرف، گویا اپنی اصل جبلت سے توغیبیات اور حقائق طرف جھکے اور ان غیر جبلی قواسر سے ظاہری نمود اور صور واشکال کی طرف مائل ہو اور اس طرح تو حیدِ مطلب کے بجائے تعددِ مطالب کا مجرم ہو جائے، جو شرک کی حقیقت ہے۔ اور یہ سب جانتے ہیں کہ مقصود کے مقصود باقی رہتے ہوئے شرک فی المقصود سے بچنا عقل کی انتہائی گم راہی اور فہم سلیم کا خون اپنی گردن پر لینا ہے، ہاں! جس درجہ کا مقصود ہوگا اسی درجہ غیر مقصود کا اس میں ساجھا قائم کرنا خلاف فطرت اور جرم ہوگا۔
یہاں پہنچ کر دنیا کی قوموں کے دور استے ہو گئے، ایک طبقہ نے جو تلاشِ معبود میں سرگرداں اور تعارفِ غیب کا دل دادہ تھا، اپنی خوگر محسوس ذہنیت سے مغلوب ہو کر تصویر کو خدائے برتر وتوانا کے تعارف کا ذریعہ قرار دیا اور معرفتِ رب کے لیے ابتداءً تصویر کو مرکز تصور بنایا، لیکن عادتِ جاریہ کے موافق انسان کی خوگریٴ احساس اور مغلوبیت عقل ومعرفت نے پہلے تصویر کو اس کا ساجھی بنایا اور پھر رفتہ رفتہ تصویر میں مقصود یت کی شان پیدا کردی، وہ تمام افعالِ عبودیت، رکوع وسجود، نذر ونیاز، بھینٹ اور قربانی وغیرہ جو اس بے چون وبے چگون ذات کے لیے ہوتے اب اس کی نام زد صورتوں اور فرضی مجسموں کے لیے ہونے لگے۔ کل تک جو حظ وکیف اس کے نام اور اسی کے لطیف دھیان سے روح میں پیدا کیا جاتا تھا، آج اس کی فرضی صورتوں سے حاصل کیا جانے لگا۔
دنیا کی سب سے پہلی بت پرست قوم امت نوح تھی، جس نے پانچ مردانِ حق (ود، سواع، یغوث، یعوق، نسر) کی تصویروں کو ذریعہٴ خدا شناسی بنا کر اپنے معبودوں میں نصب کیا، لیکن آخر کار انہیں مجسموں نے اس خوگر محسوس قوم کی ذہنیت پر فتح حاصل کر لی اور ایک لطیف و خبیر خدا کی جگہ پانچ کثیف الاجسام معبود جم گئے اور ایسے جمے کہ پھر مستقلاً انہیں سے استمداد کی جانے لگی، وہی اولاد دہندہ شمار ہوئے، وہی ابرو باراں کے مالک ٹھہر گئے اور انہیں کی سنگین صورتوں سے ہر ایک مراد مانگی جانے لگی، جس کا ثمرہ یہ نکلا کہ قوم حقیقت الحقائق تک تو کیا پہنچتی، عام حقیقتوں سے بھی محروم ہو کر محض صورت پرستی کے جال میں پھنس گئی اور اس کی ذہنیت غائر ہونے کے بجائے اس درجہ سطحی ہوکر رہ گئی کہ نوح علیہ السلام کے ساڑھے نو سو سالہ وعظ وپند سے، سوائے چند روزہ ظاہر داری کے کوئی ایک عبرت اور کوئی ایک انجام بینی بھی ان کے دل و دماغ تک نہ پہنچ سکی، پھر نہ صرف قوم نوح بلکہ ہر تصویر کی پجاری قوم جو قوم نوح کے نقش قدم پر گام زن ہوئی، اس سطح پرستی کا شکار ہوئی۔
ہندوستان کے صنم پرست اور خدا کے فرضی مظاہر سے رشتہٴ نیاز جوڑنے والے تینتیس کروڑ دیوتاؤں کی رنگین تصویروں کے غلام بنے، مغرب کے تثلیث پرست کنواری کے بت اور ابن اللہ کے مجسمے کے سامنے اوندھے ہوئے، ایران کے مجوسی یزداں واہرمن کے پیکروں کے سامنے رغبت وہیبت کا اظہار کرنے لگے۔ آتش پرستوں نے آتشیں لپٹوں کے سامنے سر نیاز خم کیا، غرض اس راہ محسوس پسندی نے صورتوں میں الجھا کر سب ہی کو حقیقت سے بے گانہ بنا دیا اور خالص شرک کے راستہ پر لا کھڑا کیا، جس سے یہ اشرف المخلوقات اپنی توحیدِ مطلب کو یکسر فنا کر بیٹھا اور قلبی پراگندگی وتشتّت کے مہلک جال میں پھنس کر اپنی طمانیت وبشاشت خاک میں ملا دی۔
دوسری قوم کو اپنی تصویر بازی اور صورت پسندی کے ذریعہ خدا کی تلاش نہ تھی اور نہ انہوں نے تصاویر سے مظاہر غیب کی جستجو شروع کی، تاہم تمدن ومعاشرت کے سلسلہ میں ساری کائنات کو اس کی تصاویر کے ذریعہ پہچاننے کے جذبہ نے ان کو بھی اصل سے ہٹا کر نقل پسندی اور پھر خالص صورت پرستی یا حقیقت سے بے تعلقی میں الجھا دیا، یہ قوم پہلے سے بہت ہی ادنیٰ اور ذلیل مرتبہ پر آکر رُکی۔ پہلی قوم نے اگر صورتوں اور مجسموں کو قبلہٴ استقبال بنایا تو خداشناسی کے لیے گویا حقیقت رسی کم از کم جذبات میں تو مرکوز تھی، گویا تلاشِ حقیقت ہی کے سلسلہ میں صورتوں کے ساتھ انہیں شغف پیدا ہوا، لیکن دوسری قوم کی تصویر بازیوں میں ابتدا ہی سے حقیقت بینی کا کوئی ادنیٰ جذبہ بھی دست یاب نہیں ہوتا، اس کے تصویری جذبات صرف تزئین وآرائش یا نمائش وزیبائش ہی تک محدود ہیں، جس کا تعلق صورت درصورت ہی سے ہے اور بس۔
یعنی اس قوم کے یہاں تصویروں سے کسی مستور اور غیبی حقیقت کا ظہور تو کیا مطلوب ہوتا، اس مشاہد کائنات کا بھی صرف صورتوں ہی سے شناسا ہونا منتہائے مقصود ہے۔
اور ظاہر ہے کہ کائنات کی حقیقت وصورت میں صورت کا درجہ خود فانی اور عارضی تھا اور جب کہ فانی کا بھی فانی درجہ یعنی تصویر کو منتہائے مقصود بنا دیا جائے تو ایسی قوم صرف واقعیت ہی سے دور نہیں ہوگی، بلکہ باطل سے باطل اور بے حقیقت سے بے حقیقت بنیاد پر کھڑی ہو کر اپنے وزن اور طاقت اور اپنی جڑوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے کم زور کر دینے کی مرتکب ٹھہرے گی۔
یورپ کی تمدن پرست قومیں اسی باطل سازی اور تصویر بازی کی لعنت میں سب سے زیادہ گرفتار ہوئیں، ان اقوام کو اس بے بنیاد صورت پرستی اور نمائش پسندی نے اس درجہ سطحی اور بے حقیقت قوم بنایا کہ آج وہ کسی حقیقت تک تو کیا پہنچتی اپنی مصنوعی صورتوں کے سامنے قدرتی صورتوں کے ساتھ بھی پورا شغف قائم نہ رکھ سکی کہ ان میں کچھ نہ کچھ تو واقعیت کی شان ضرور تھی، ان کی ذہنیت اور جذبات کا بہت بڑا حصہ اپنی ہی خود ساختہ صورتوں کے ساتھ وابستہ ہو گیا۔ تصویروں کی ساخت وپرداخت اور خریداری پر لاکھوں روپیہ صرف کرنا، تصویریں سامنے رکھ کر عالمِ خیال میں ان سے باتیں کرنا، عشق ومحبت کے جذبات کا غذ کی رنگین عکوس پر نچھاور کرنا، ان کا شعار ہو گیا۔
آج عریاں تصاویر کو سامنے رکھ کر شہوانی جذبات اسی طرح مشتعل کیے جاتے ہیں جس طرح کسی اصل صورت کے سامنے ہوسکتے تھے۔ بڑی بڑی شخصیتوں کے مجسمے صرف بازاروں ہی کے چوک میں نصب نہیں، بلکہ دلوں کی گہرائیوں میں اس درجہ گھس چکی ہیں کہ ان کی کسی ادنیٰ توہین پر اسی طرح ازالہٴ حیثیت کے مقدمات چلائے جاتے ہیں جس طرح اصل شخصیت کے بارے میں معاملہ چل سکتا۔
آخر لارنس کے بت کا مقدمہ دنیا کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا ہے، وکٹوریہ کے بت کی توہین پر تحقیقاتی پولیس کا مقرر کیا جانا اس دور صورت پرستی کی تاریخ میں محفوظ ہے، حالاں کہ اصل کا آج کوئی پتہ نشان بھی نہیں، تمام معاملات صرف مصنوعی پیکروں کے ساتھ اسی شدومد سے کیے جارہے ہیں جس طرح قدرتی مجسموں کے ساتھ ہوتے۔
بعض نایاب اور پرانے تصویری شاہکاروں کی قیمتیں اس مقدار میں اٹھ جاتی ہیں کہ شاید اس مصور کو اگر نیلام کیا جاتا تو اس کے عشر عشیر بھی دام نہ اٹھ سکتے، حتیٰ کہ ان تصویری جذبات نے فلم سازی کا ایک مستقل فن ہی پیدا کر دیا ہے، جس کے لیے خزانوں کا ایک مستقل حصہ وقف ہے۔ ایک ایک فلم پر ہزار ہا روپیہ (حضرت حکیم الاسلام رحمہ اللہ کا یہ مضمون جس دور کا ہے اس وقت فلموں کی لاگت واقعی ہزار اور لاکھ تک ہوگی مگر آج بڑے بینر کی فلموں کی لاگت کروڑوں نہیں، اربوں روپے کی حدوں کو چھورہی ہے۔ آج کل مقبول اور مشہور فلم کے ہیرو کی ایک ایک فلم میں کام کرنے کی قیمت پانچ کروڑ تک جا پہنچی ہے، اس طرح ایک بڑے بجٹ کی فلم پر آج کے دور میں اوسطاً پچاس کروڑ روپے کا خرچ آرہا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سلسلہ روز افزوں ہے۔ اس سے ان متحرک تصویروں پر انسانی دولت کے بے جا صرفہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ”محمد عمران قاسمی بگیا نوی“) کی لاگت ہے، فلم سازوں کی بیش قرار تنخواہیں ہیں اور سنیما کی قیمتی عمارتیں باب تمدن کا ایک نہایت ہی شان دار اور خوش گوار اضافہ سمجھی گئیں، آدمیوں سے وہ اثر نہیں لیا جاتا جو سنیما کی متحرک تصویروں سے لیا جا رہا ہے۔
نمائش وسطح پرستی کی یہ وہ انتہائی حد ہے کہ آج کا انسان گویا خود بھی اپنے نزدیک اس لیے باطل محض ہو گیا کہ اس کے شغل کے لیے خود اس کی قدرتی شکل بھی کافی نہ رہی، جب تک کہ اس صورت کی بھی ساختہ صورت اس کے سامنے موجود نہ ہو۔
غرض حب وبغض، نفرت ورغبت، عشق ومحبت اور خرید وفروخت کے تمام وہ معاملات جو ایک سطح پسند انسان، انسان کی اصلی اور قدرتی صورت سے قائم کرتا، آج اس سطح کی بھی نقلی اور فرضی سطح وصورت کے ساتھ جوڑتا جا رہا ہے، کیا یہ صورت پسندی کی انتہا نہیں؟ اور جب ایسا ہے تو کیا یہ حقیقت سے بے خبری اور بیگانگی کی بھی انتہا نہیں ہے؟ اور پھر ایسی قوم کے حق میں جو حقائق سے بے گانہٴ محض بن کر محض صورتوں اور صورتوں کی بھی نقالی میں الجھ کر رہ جائے، عقل ودانش کیا فیصلہ کرے گی؟
بہرحال قوموں کے ان دونوں طبقات میں تصویر نے اپنی طبعی رفتار کے ماتحت اصل کو پردہٴ نسیان میں چھپا کر زبردستی خود اس کی جگہ سنبھال لی اور اس طرح دونوں جگہ اس نے توحیدِ مطلب کی جڑیں اکھاڑ کر شرک کی بنیادوں کو مستحکم کر دیا، متدین اقوام میں شرکِ عبادت پیدا کر دیا اور متمدن اقوام میں شرک عادت، پھر یہ شرک بھی اس تصویر پسندی کا درجہ اولین ہے، صورت پسندی کی آخری منزل یہ ہے کہ بلا شرکت غیرے صورتیں ہی حقائق کی جگہ سنبھال کر بالاستقلال خود ہی مقصودیت کی شان پیدا کرلیں، چناں چہ مذہبی اقوام کے سامنے اصنام ہی مستقل حاجت روا بن کر قبلہٴ قلوب ہو گئے اور تمدنی قوموں کے سامنے فوٹو اور تصویریں ہی مستقل محبوب ومطلوب بن گئے۔
آج کوئی ڈیزائن اور نمونہ مقبول نہیں جس میں تصویر کا دخل نہ ہو، کوئی رسالہ جاذبِ نظر نہیں جب تک تصاویر اور اور خصوصًا عریاں تصاویر سے مزین نہ ہو، گویا ادبی رسالوں کی جان اب بجائے علوِ مضامین کے رنگینی ٴ تصاویر قرار پا گئی ہے، علم میں طاقت نہیں کہ لوگوں کی جیبوں سے پیسے گھسیٹ سکے، مگر تصویر اپنی خالص محبوبیت کی بنا پر یہ جذب وکشش ضرور رکھتی ہے کہ تجارتوں کو فروغ دے سکے، دکانوں کی رونق بڑھائے اور لوگوں کا وقت اپنے اوراق کے لیے خرید سکے۔
خلاصہ یہ نکلا کہ تصویر بالخاصہ حق پسندی سے ہٹا کر بسہولت باطل پسندی کی ذہنیت پر لے آتی ہے، واقعی جذبات کو بے ثمرہ بناتے ہوئے انجام کار عاقبت کی بہرہ مندیوں کو ملیامیٹ کر دیتی ہے۔ پس کہاں تو انسان کتمِ غیب سے نکل کر عالمِ شہود میں اس لیے آیا تھا کہ ہر حسی مشاہد سے کنارہ کش ہو کر، غیب کے قلبی مشاہدوں میں مصروف ہو، ہر صورت سے اعراض کر کے حقیقت کی طرف جائے اور ہر باطل سے نگاہ ہٹا کر حق کی طرف دوڑے، تا کہ اس کا لگاؤ فانی کے بجائے باقی سے ہو اور اس طرح وہ خود بھی باقی بن جائے اور اسے اپنی اصل سے وابستگی ہی رہے اور کہاں ان تصاویر کی بدولت اس کج راہی میں گرفتار ہوا کہ غیب کے ہر مرتبہ سے کنارہ کش ہو کر اس نے محسوسات ہی کو اپنا قبلہٴ نظر بنالیا۔ مخفیات کے ہر خزانہ سے محروم ہو کر حسیات ہی کو منظور نظر کر لیا اور روحانیت کے تمام لذیذ مشاغل سے بے پروا ہو کر مادیات کی کثافتوں میں دھنستے رہنا ہی اپنا سب سے زیادہ لذیذ مشغلہ قرار دے لیا۔ یہاں تک کہ جب باقیاتِ صالحات سے اعراض کر کے فانی چیزوں میں جا پھنسا تو اپنی اصل سے منقطع ہو کر خود بھی بے اصل بن گیا۔
اس حقیقت کو پیش نظر رکھ کر اگر بارگاہِ حق کے حقیقت شناس اور ان کے حقیقت رس قلوب صورتوں سے بے لگا ؤ اور تصویروں سے متنفر ہوں تو کون سی جائے تعجب ہے؟ ملائکہ جیسے حقیقت شناس بارگاہِ حق تصویر کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں، حدیث شریف کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
لا تدخل الملائکة بیتًا فیہ کلب ولا تصاویر․ (بخاری ومسلم)
ترجمہ: جس گھر میں کتا اور تصاویر ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم جیسے حقیقت شناس بارگاہِ قدس کا ان رسوم ونقوش کے ساتھ برتاؤ کیا تھا؟
إن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یکن یترک فی بیتہ شیئًا فیہ تصالیب إلا نقضہ․ (رواہ البخاری)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کوئی ایسی شے جس میں تصویر ہو بلا توڑے نہیں چھوڑتے تھے۔
حق تعالیٰ شانہ ان تصویر سازوں کے ساتھ یومِ آخر میں کیا طریق عمل اختیار فرمائیں گے؟
أشد الناس عذابًا یوم القیامة الذین یضاہون بخلق اللہ (وفی روایة) المصورون․ (بخاری ومسلم)
ترجمہ: یوم قیامت میں سب سے زیادہ سخت عذاب میں وہ لوگ ہوں گے جو خدا کی شان تخلیق میں اپنے کو اس جیسا بنانا چاہتے تھے (یعنی مصورین)۔
یہ تو صورتوں کی تصویروں کے متعلق ارشادات شریعت تھے، لیکن حقائق کی تصویریں جو خود ہماری صورتیں ہیں ان کے متعلق بھی منشائے حق یہ ہے کہ ہم انہیں مستقلاً مرکز التفات نہ بناویں۔
إن اللّٰہ لا ینظر إلی صورکم، ولکن ینظر إلی قلوبکم ونیاتکم․
ترجمہ: اللہ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا، لیکن وہ تمہارے دلوں اور نیتوں کو دیکھتا ہے (جو تم میں غیب کی چیزیں ہیں)۔
اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ انسان کا بلا شرکت غیرے اصل وجود اور اپنی حسی کائنات کی اصل الاصول کے فکر ودھیان میں رہنا جب ہی ممکن تھا کہ صورتوں سے اپنی حسی آنکھ بند کر کے فہم وفراست اور قلب کی آنکھ کھولے، تا کہ غیبی وجود اور مخفی اسرار اس کے مشاہدے میں آسکیں۔
پس اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ نکلا کہ صورتوں کی تصویریں تو بالکلیہ نا قابلِ التفات اور تشتّت کی جڑیں ہیں، رہیں قدرتی صورتیں سو گو کچھ نہ کچھ عارضی واقعیت رکھتی ہیں، لیکن پھر بھی تم کائنات کی اس حسی اور صوری خوش نمائی سے یکسو ہو کر اس کی حقیقی خوبی کو توجہات کا مرکز بناؤ، بلکہ پھر ان حقائق سے بھی قطع نظر کر کے اس حقیقت الحقائق تک پہنچنے کی سعی کرو، جو تمام کمالات وجمالات کا سر منشا اور حقیقی خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ شریعت نے شہود سے ہٹا کر غیوب کی طرف انسان کو بڑھانا چاہا ہے، اجسام سے ہٹا کر حقائق کی طرف اور بالآخر مخلوقاتی حقائق سے بھی ہٹا کر حقائق الہیہ کی طرف لانا چاہا ہے، جن کا مشاہدہ بجز صورتوں سے قطع تعلق کیے ہوئے دشوار و ناممکن تھا۔
پس کہاں اسلام کی یہ حقیقت رسانی اور حق نمائی کہ بطون دربطون اور غیب درغیب کی طرف بڑھا کر انسان کو حقیقت سے ہم کنار کر دیا، اور کہاں انسانی تخیل کی یہ کج راہی کہ نمائش اور نمود در نمود کی طرف دھکیل کر انسان کو حق اور حقیقت سے بعید وبے گانہ محض کر دیا، حقیقت الحقائق سے جدا کر کے جزوی حقائق پر اور ان سے بھی بے بہرہ بنا کر صور واشکال پر اور پھر ان سے بھی ہٹا کر تصویری خدوخال پر لا کھڑا کیا۔
پس وہاں اگر اصل الاصول تک پہنچ جانے کی وجہ سے توحید درتوحید حاصل ہوتی تھی، تو یہاں غیر حق کی طرف بڑھتے چلے جانے سے شرک در شرک پیدا ہوگیا، اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ تصویر اشتراک کی جڑ ہے اور صورت پسندیاں انسان کی توحید کو بجائے خود کبھی باقی نہیں چھوڑ سکیں تو یہ ایک بجا اور مطابق واقعات دعویٰ ہوگا، اس لیے اگر توحید پسند طبقہ مطلقاً تصویر کا دشمن اور اس سے متنفر ہو تو یہ اس کا ایک قدرتی جذبہ اور فطری حق ہے۔
اس لیے انبیاء علیہم السلام جیسے کامل موحدین نے انسان کو انہماک صور واشکال سے دور دور رکھنا ہی اپنے مسلک کا ایک جلی اور روشن نشان قرار دیا ہے اور انہوں نے:
1۔ تصویر ذی روح کو حرام قرار دیا۔
2۔ ملائکہ کی نفرت اس سے ظاہر کی۔
3۔ خود اپنا بغض اس سے بتلایا۔
4۔ فن تصویر سازی اور مصور پر لعنت کی۔
5۔ تصویر بنا دیے جانے پر اس کے مٹا دینے کی تعلیم دی۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے شجرة الرضوان جیسے متبرک شجر کو کٹوا دیا کہ کہیں اس سے صورت پرستی کی بنیاد نہ پڑ جائے، مطاف مقدس میں حجر اسود کو یہ جتلا کر چوما کہ:
”میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، جس کے قبضہ میں نہ نفع ہے نہ ضرر، اگر میں اللہ کے رسول کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھتا تو تجھے ہرگز نہ چومتا“۔
تاکہ حجر پرستی کی اساس نہ قائم ہو جائے اور اسی لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبورِ انبیاء کو سجدہ گاہ بنالینے والوں پر لعنت کی کہ مبادا، اس ذریعہ سے اس مہلک صورت پرستی یا صنم پرستی کی بنیاد نہ قائم ہو جائے اور اس طرح ایک ضعیف مسلم حقیقت سے دور نہ جا پڑے۔
پھر اسی لیے حقیقت شناسانِ باطن نے تصویر پسندوں اور صورت دوستوں کو ایسے مظان بھی بچانے کی سعی کی ہے جہاں ان کے گرفتارِ صورت ہو کر بعید از حقیقت ہو جانے کا ذرا سا بھی خطرہ تھا۔
سالک ابتدائے سیر الی اللہ میں جب کہ حقائق کو مختلف باطنی صور واشکال کے جامہ میں مشاہدہ کرتا ہے، جو خود بھی ایک حد تک غیبی چیزیں ہیں، اور ان کا مشاہدہ بھی غیب ہی میں ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی اس کا باطنی رہنما اور مربی اسے ان صورتوں سے بے التفات بنانے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ کہیں وہ ان نقوش کی رنگینیوں میں پھنس کر اصل حقیقت سے بیگانہ نہ رہ جائے۔
کہ تو طفلی وخانہ رنگین است
غرض یہ کہ صورت پسندی، تصویر دوستی، تصویر سازی، تصویر بازی، اسلامی مقاصد کے منافی ہے اور اس کے بنیادی مقصد رجوع الی الغیب یا سیر الی اللہ کی راہ میں ایک زبردست رکاوٹ ہے۔ اس لیے کم از کم مسلم قوم کو اپنی حقیقت پسندانہ ذہنیت کو چھوڑ کر صورت پرستانہ جذبات پیدا کر لینا بلا شبہ قلب ماہیت اور قلب موضوع ہے۔
حق تعالیٰ توفیق دے کہ ہم صحیح اسلامی جذبات کا احترام کریں اور کم سے کم ایسی پگڈنڈیوں سے کترا کر چلنے کی سعی کریں جو اسلامی شاہ راہ سے دور پھینک رہی ہوں اور منزل مقصود کو بعید سے بعید تر بنانے میں جادو کا اثر رکھتی ہوں۔ وباللہ التوفیق