۱۵ شعبان کی رات بیری کے پتوں سے غسل کرنے کا حکم

۱۵ شعبان کی رات بیری کے پتوں سے غسل کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کچھ لوگ 15 شعبان کو مخصوص کرکے بیری کےپتوں ٖ سےغسل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے پورا سال جادو کا اثر نہیں  ہوگا ۔آیا یہ درست ہے ؟

جواب

غسل کرنا مباح عمل ہے ،لیکن اس کےلئے کوئی خاص وقت یا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے ،اورمباح چیز کو جب لازم وضروری اور مستحب سمجھ کر کیا جائےتو بدعت بن جاتی ہے،لہذا صورت مسئولہ میں پندرھویں شعبان کو بیری کی پتوں سے غسل کو لازم وضروری اور مستحب سمجھنا اور یہ وھم کرنا کہ اس سے جادو کا اثر نہیں ہوتا ہے، شرعا درست نہیں،البتہ لازم وضروری  اور مستحب سمجھے بغیرکسی دیندار ماہر عامل کے کہنے پر بطور علاج  یابطور تجربہ اس عمل کو کیاجائے تو گنجائش ہے ۔
وفي الاعتصام:
فأفعال العباد وأقوالهم لا تعدو هذه الأقسام الثلاثة مطلوب فعله ومطلوب تركه ومأذون في فعله وتركه والمطلوب تركه لم يطلب تركه إلا لكونه مخالفا للقسمين الأخيرين لكنه على ضربين... والثاني أن يطلب تركه وينهى عنه لكونه مخالفة لظاهر التشريع من جهة ضرب الحدود وتعيين الكيفيات والتزام الهيئات المعينة أو الأزمنه المعينة مع الدوام ونحو ذلك.(باب فی تعریف البدعت وبیان معناہ،ص:23-24:دارالفکر)
وفي مرقاة المفاتيح :
وفيه أن  من أصرعلی أمر مندوب وجعله عزماًولم یعمل بالرخصة،فقد أصابه منه الشیطان من الإضلال فکیف من أصر علی بدعة او منکر.(کتاب الصلاة،باب الدعاءفی التشهد الفصل الاول، تحت رقم الحدیث 946، 31/3:رشیدیة).فقط. واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:183/140