گیارہویں کو قربانی کے مثل سمجھنا

گیارہویں کو قربانی کے مثل سمجھنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ایک آدمی گیارہویں کی خیرات کرتا ہے،پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی  رحمہ اللہ کے نام  کی ،دوسرا  آدمی اس کو کہتا ہےکہ:یہ ناجائز ہے،کیونکہ صرف اللہ کے نام کی خیرات کرنی چاہیے،گیارہویں کرنے والا آدمی کہتا ہے کہ قربانی جب کی جاتی ہےعید الاضحیٰ کے موقع  پر وہ بھی تو اسی طرح کرتے ہیں کہ میں اباجی کے نام کی قربانی کرتا ہوں،یا امی جان کے نام کی ،تو اس میں اور گیارہویں میں کیا فرق ہے؟ جب قربانی کسی کے نام کی ہوسکتی ہے،تو گیارہویں کیوں پیر صاحب کے نام کی نہیں ہوسکتی،مہربانی فرماکر وضاحت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی نذر ونیاز کرنے والا غیر اللہ کی نذرونیاز کرتا ہے، کیونکہ اس کی مراد شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہوتا ہے، اگر اس کا یہ عقیدہ نہیں ہے تو بھی بدعت ہے، کیونکہ شریعت میں ایصال ثواب کے لیے دن کی تعیین جائز  نہیں ہے۔
جبکہ قربانی کرنے والے کی مراد تقرب إلی اللہ ہوتی ہے، اسی طرح اگر انسان دوسرے کی طرف سے قربانی کرتا ہے، تو اس میں بھی رضائے الہٰی مقصود ہوتی ہے، دوسرے کو تو فقط ثواب پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔
لما في التنزیل العزیز:
«حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما أھل لغیراللہ بہ....»(سورۃ المائدۃ:03)
وفي الاعتصام:
’’التزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لھا ذلک التعیین في الشریعۃ کالتزام صیام یوم النصف من شعبان وقیام لیلتہ‘‘.(باب في تعریف البدع،ص:26،دارالمعرفۃ)
وفي الدر:
’’ذبح حیوان مخصوص بنیۃ القربۃ في وقت مخصوص‘‘. (کتاب الأضحیۃ، 540/9،رشیدیۃ).
وفي رد المحتار:
’’من ضحی عن المیت یصنع کما یصنع في أضحیۃ نفسہ من التصدیق والأکل والأجر للمیت والملک للذابح‘‘.(کتاب الأضحیۃ، 591/9، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/202