کیا کسی ایک فقہ کو فالو (Follow)کرنا ضروری ہے ؟

کیا کسی ایک فقہ کو فالو (Follow)کرنا ضروری ہے ؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی ایک فقہ کو فالو(پیروی) کرنا ضروری ہے؟ اگر ہم کسی ایک فقہ کو فالو(پیروی) کرنے کے بجائے چاروں فقہ میں سے ایسے فتوے پر عمل کرسکتے ہیں جس سے چاروں کی حکم پر عمل ہو۔جیسے :نماز عصر کے مسئلے میں فقہ حنفی اور رضاعت کے مسئلے میں فقہ شافعی وغیرہ۔

جواب

قرون اولی میں خیر کا غلبہ تھا، نفسانی خواہشوں کا ان میں دخل نہیں تھا اس لیے جو شخص بھی اپنے جس بڑے سے مسئلہ دریافت کرتا وہ اس پر عمل کرلیتا تھا، چاہے نفس کے موافق ہو یا خلاف ہو، مگر بعد کے دور میں یہ بات نہیں رہی، بلکہ لوگوں میں ایسا داعیہ پیدا ہونے لگا کہ اگر ایک مسئلہ ایک عالم سے معلوم کیا، اس میں نفس کو تنگی محسوس ہوئی تو دوسرے سے معلوم کیا، اسی پر قناعت نہیں کی، جس میں سہولت معلوم ہوئی تو بس اسی کو اختیار کرلیا، پھر اسی پر قناعت نہیں کی گئی، بلکہ ہر مسئلہ میں اس بات کی فکر لگی کہ کہاں سے سہولت کا جواب ملتا ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ طلب حق کا داعیہ نہیں، اس میں بعض دفعہ بڑی خرابی پیدا ہوجاتی ہے، مثلا: کسی با وضو آدمی نے بیوی کو ہاتھ لگایا، اس سے کسی شافعی المذہب نے کہا کہ وضو دوبارہ کرو، کیوں کہ یہ ناقض وضو ہے، تو یہ شخص جواب میں کہتا ہے کہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتا ہوں، ان کے نزدیک ناقض وضو نہیں، بلکہ اس وضو سے نماز درست ہے، پھر اس نے قے کی، اس پر ایک حنفی المذہب نے کہا وضو دوبارہ کرو، کیوں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قے ناقض وضو ہے، اس نے جواب دیا کہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب کی تقلید کرتا ہوں، ان کے نزدیک ناقض وضو نہیں ہے، بلکہ اس وضو سے نماز درست ہے، اب یہ شخص اگر اسی وضو سے نماز پڑھے گا تو اس کی نماز نہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک درست ہوگی، نہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک درست ہوگی، اسی کا نام تلفیق ہے جو کہ بالاجماع باطل اور نا جائز  ہے، در حقیقت یہ طریقہ اختیار کرنا امام شافعی رحمہ اللہ کی تقلید ہے، نہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید ہے، بلکہ یہ تو خواہش نفسانی کی اتباع ہے جو کہ شرعا ممنوع ہے، اس کا نتیجہ خدا کے راستے سے ہٹنا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ایک ہی امام کی تقلید کی جائے۔
لما في التنزیل:
«ولا تتبع الھوی فیضلک عن سبیل اللہ».(سورہ صٓ: 26)
وفي أصول الإفتاء وآدابہ:
’’والذي یظھر لي- واللہ أعلم - بأن المنع من التلفیق ھو الراجح، لأن الذي اتفق علیہ الجمیع أن التلاعب بالمذاھب بالتشھي اتباع للھوی، وھو ممنوع بنص القرآن الکریم، قال اللہ سبحانہ وتعالی: (فَاحْکُم بَیْْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْھَوَی فَیُضِلَّکَ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ إِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّونَ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوا یَوْمَ الْحِسَابِ ) ولئن فتح باب التلفیق بمصراعیۃ لأدی ذالک إلی اتباع الھوی، وانحلال ربقۃ التکلیف، ولکن التلفیق الممنوع ھو أن یختار للإنسان في قضیۃ واحدۃ مذھبین بما یؤدي إلی حالۃ لا یجوزھا أحد في تلک القضیۃ بخصوصھا‘‘.(الفصل الخامس:الافتاء بمذھب آخر حکم التلفیق، ص: 255، مکتبہ معارف القرآن)
وفي الدر مع الرد:
’’وأن الحکم الملفق باطل بالإجماع‘‘.
’’(قولہ:وأن الحکم الملفق) المراد بالحکم:الحکم الوضعي کالصحۃ، مثالہ:متوضئ مال من بدنہ دم ولمس امرأۃ ثم صلی، فإن صحۃ ھذہ الصلاۃ ملفقۃ من مذھب الشافعي والحنفي، والتلفیق بالطل، فصحتہ منتفیۃ‘‘.(مطلب لا یجوز العمل بالضعیف حتی لنفسہ عندنا: 176/1، مکتبۃ رشیدیۃ)
وفي رد المحتار:
’’وفیہا عن الفتاوی النسفیۃ:الثبات علی مذھب أبي حنیفۃ خیر وأولی، یدل لذالک ما في القنیۃ رامزًا لبعض کتب المذھب:لیس للعامي أن یتحول من مذھب إلی مذھب، ویستوي فیہ الحنفي والشافعي‘‘.(کتاب الحدود، مطلب فیما إذا ارتحل إلی غیر مذھبہ العامي لا مذھب لہ: 128/6، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/127