کھیل کے میدان میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم

کھیل کے میدان میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ علاقے اور محلے کا ایک عوامی گراؤنڈ ہے، جہاں پر مختلف کھیل کھیلے جاتے ہیں، اب عصر کا وقت ہوگیا، زید کہتا  ہے نماز باجماعت پڑھیں گے تا کہ تمام لوگ نماز باجماعت پڑھیں، اور بکر کہتا ہے نہیں جماعت نہیں پڑھیں گے، کیوں کہ آس پاس مسجدیں موجود ہیں، دوسری مسجدکی موجودگی میں یہاں نماز باجماعت مکروہ ہے، اب کس کی بات مانی جائےگی: نماز اکیلے  پڑھی جائے یا با جماعت؟ اور اس طرح کی جماعت کبھی کبھار ہوتی ہے، ہر روز نہیں اور ان کو اگر جماعت نہ پڑھائی جائے، تو ایک دو بندے شاذو نادر مسجد جائیں گے۔کیا مصلحت پڑھانے میں ہے یا نہ پڑھانے میں؟ بینوا توجروا.

جواب

واضح رہے کہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نمازپڑھنے کی بہت تاکید آئی ہے ،بلاعذر اور کھیل کود کی وجہ سے اس کو چھوڑنا گناہ ہے، لہذا وہاں پر موجود سب لوگوں کو مسجد کے جماعت میں شریک ہونا چاہیے، البتہ اگر وہاں پر  (کھیل کے میدان میں ) نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جائے، تو یہ تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
لما في حاشية الطحطاوي:
”(والصلاة بالجماعة سنة) في الأصح مؤكدة شبيهة بالواجب في القوة (للرجال) للمواظبة ولقوله صلى الله عليه وسلم: ”صلاة الجماعة أفضل من صلاة أحد وحده بخمسة وعشرين جزءا“. وفي رواية:”درجة“ فلا يسع تركها إلا بعذر، ولو تركها أهل مصر بلا عذر يؤمرون بها، فإن قبلوا وإلا قوتلوا عليها؛ لأنها من شعائر الإسلام ومن خصائص هذا الدين. ويحصل فضل الجماعة بواحد، ولو صبيا يعقل أو امرأة، ولو في البيت مع الإمام“.
قوله:(أو امرأة) حتى لو صلى في بيته بزوجته أو جاريته أو ولده، فقد أتى بفضيلة الجماعة، كذا في الشرح، ولكن فضيلة المسجد أتم“. (كتاب الصلوة، باب الإمامة، ص: 286:قديمي)
وفي الرد:
”وسيأتي في الإمامة أن الأصح أنه لو جمع بأهله لا يكره، وينال فضيلة الجماعة، لكن جماعة المسجد أفضل“. (كتاب الصلوة، مطلب في كراهة تكرار الجماعة في المسجد: 81/2:رشيدية)
وفي البحر:
’’وذكر القدوري رحمه الله تعالى: يجمع بأهله ويصلي بهم، يعني: وينال ثواب الجماعة“.(كتاب الصلوة، باب الإمامة: 606/1:رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/297