کسی کے ملک میں اس کی اجازت کےبغیر تصرف کرنا

کسی کے ملک میں اس کی اجازت کےبغیر تصرف کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں کراچی کا رہائشی ہوں۔ میری بیوی جن کا انتقال سال 2015 میں ہوا۔ میرے کل تین بچے ہیں جن میں دو بیٹے اور ایک بیٹی ،جو کہ سب میں چھوٹی اور شادی شدہ بھی ہے۔ باقی دونوں بیٹے غیر شادی شدہ ہیں۔
میرا بڑا بیٹا جس کی عمر 35 سال ہے تقریبا 13 کے طویل عرصے سے نشے کی بری لت کا شکار ہے۔ اس کا علاج بھی کروایا جا چکا ہے اور اسے قریبا پانچ مرتبے محلے اور دوسرے لوگوں نے جیل بھی بھجوایا ہے۔ اس وقت بھی وہ جیل میں بند ہے۔
اس کے علاوہ میرا چھوٹا بیٹا جس کی عمر 31 سال ہے اور جو کہ بے روزگار ہے اور میری بیوی کے انتقال اور بیٹی کی شادی ہوجانے کے بعد میرے کھانے پینے اور دوائی وغیرہ کے خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ گھر کے بھی تمام معاملات کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ ہمارا گزر بسر میری پینشن سے ہوتا ہے۔
ہم جس مکان میں رہتے ہیں وہ میری مرحومہ کی ملکیت میں ہے۔ مکان کافی پرانا ہونے کی وجہ سے خستہ حال ہے۔ یہاں تک کہ اس کے کمروں کی چھت اور دیواریں کبھی بھی ہمارے اوپر گرنے کا خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ مکان میں دیگر مسائل، جیسے کہ بارش کا پانی آنا اور گٹر کا بھر جانا، وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ہماری مالی حیثیت ایسی نہیں کہ ہم اس گھر کو بنوا سکیں۔
اس سلسلے میں میں مکان تبدیل کرنے کا خواہشمند ہوں جس میں میرا چھوٹا بیٹا اور بیٹی رضا مند ہیں، جب کہ بڑا بیٹا جو کہ طویل عرصے سے نشے کا عادی اپنے حصے کا تقاضا کرتا آ رہا ہے، تا کہ ان پیسوں سے نشہ کرسکے۔ اب اگر ہم اسے اس کا حصہ مکان بیچ کر ادا کردیتے ہیں تو پھر ہم کبھی بھی مکان نہیں خرید سکیں گے اور وہ اس کا حصہ بھی نشے میں اڑا بیٹھے گا۔
برائے مہربانی قرآن ودین کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا ہم ہمارے رہائش کے لیے مکان کی تبدیلی کے سلسلے میں بڑے بیٹے کی رضا مندی حاصل کیے بنا مکان بیچ کر دوسرا مکان خرید سکتے ہیں۔ جبکہ اس سب معاملات میں کسی حصہ دار کو اس کا حصہ نہ دیا جائے کیوں کہ مکان بیچ کر مکان خریدنا اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں پرانے مکان کے فروخت ہونے کی بعد حاصل شدہ مالیت میں بڑے بیٹے کے حصہ میں سے اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا شرعا درست نہیں، لہٰذا ولی (والد) اس کا حصہ الگ کر کے اپنے پاس روک لے اور بقدر ضرورت اس پر خرچ کرتا رہے۔
لما في التنویر مع الدر:
’’(کل تصرف صدر منہ)تملیکا کان کبیع وتزویج أو إسقاطًا کطلاق وإعتاق (ولہ مجیز)أي:لھذہ التصرف من یقدر علی إجازتہ (حال وقوعہ انعقد موقوفًا) ومالا مجیز لہ بالغًا عاقلًا .........وھذا إن باعہ علی أنہ (لمالکہ)أما لو باعہ علی أنہ لنفسہ أو باعہ من نفسہ أو شرط الخیار فیہ لمالکہ المکلف، أو باع عرضًا من غاصب ....... عرض آخر للمالک بہ فالبیع باطل‘‘.(کتاب البیوع، فصل في الفضولي: 317/7،  رشیدیۃ)
وفي الفتاوی السراجیۃ:
’’لا یجوز التصرف في الملک المشترک إلا برضا الآخر، ولہ أن یفعل ماھو من جنس السکنی‘‘.(کتاب القسمۃ، باب المتفرقات: 448، مکتبہ زم زم)
وفي المحیط البرہاني:
’’وأما الحجر بسبب الفساد والسفہ فھو نوعان:أحدھما:لخفۃ في عقلہ، أو کان سلیم القلب لا یھتدي إلی التصرفات ........ والثاني:أن یکون سفیھا مبذرًا مضیعًا لمالہ، أما في الشر بأن یجمع أھل الشراب والفسقۃ في دارہ ویطعمھم ویسقیھم، ویسرف في النفقۃ، ویفتح باب الجائزۃ والعطاء علیھم، وفي الخیر بأن یسرف جمیع مالہ في بناء المسجد‘‘.(کتاب الحجر، الفصل بیان أنواع الحجر علی مذھبھما: 186/19، إدارۃ القرآن).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/83