کسی پیر یا بزرگ کے نام پر پکا ہوا کھانا کھانا

کسی پیر یا بزرگ کے نام پر پکا ہوا کھانا کھانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص کسی بھی ولی اللہ نام پر کچھ پکاتا ہے ،تو ایسا کھانا ہمارے لیے جائز ہے؟ جیسے کہ کوئی گیارہویں کی نیاز کرتا ہے اور کھانے کی دعوت دیتاہے اور میں دل میں اسے برا مانتاہوں،لیکن ایک مسلمان کی دعوت ہونے کے ناطے اس کے گھر جا کے کھالیا ،تو اس بارے میں کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ اولیاء اللہ کے نام پر کچھ پکانا اور لوگوں کو کھلانا غیر اللہ کے نام پر ہونے کی وجہ سے جائز نہیں،بلکہ حرام ہے، البتہ اگر اللہ تعالیٰ کے نام پر پکا کر اولیاء اللہ کو اس کا ایصال ثواب کیا جائے تو جائز ہے،لیکن اس میں  کسی مہینے یا تاریخ کی تخصیص کرنا بدعت ہے،لہٰذا اس قسم کی دعوت قبول کرنے میں ایک بدعت کے گناہ کی تائید لازم آتی ہے،اس لیے ایسا کھانا کھانے سے اجتناب ضروری ہے۔
لما في التنزیل العزیز:
«إنما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الحنزیر وما أھل بہ لغیر اللہ».(سورۃ البقرۃ:173)
وفي الدر مع الرد:
’’واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراھم والشمع والزیت ونحوھا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیھم فھو بالإجماع باطل وحرام ما لم یقصدوا صرفھا لفقراء الأنام، وقد ابتلی الناس بذلک.......‘‘
’’(قولہ:تقربا إلیھم)کأن یقول یاسیدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مریضي أو قضیت حاجتي فلک من الذھب أو الفضۃ أو الطعام أو الشمع أو الزیت کذا بحر.
(قولہ:باطل وحرام) لوجوہ منھا: أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز؛لأنہ عبادۃ والعبادۃ لاتکون لمخلوق، ومنھا: أن المنذور لہ میت والمیت لایملک ومنھا: أنہ إن ظن المیت یتصرف في الأمور دون اللہ تعالٰی واعتقادہ ذلک کفر، اللّٰہم إلا إن قال: یا اللہ إني نذرت لک إن شفیت مریضي أو رددت غائبي أو قضیت حاجتي أن أطعم الفقراء الذین بباب السیدۃ نفیسۃ...إلخ‘‘.(کتاب الصوم،مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام:491/3،رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/197