کرسمس ڈے، ویلنٹائن ڈے، ایسٹر منانا یا اس کی مبادکباد دینا

 کرسمس ڈے، ویلنٹائن ڈے،ایسٹر منانا یا اس کی مبادکباد دینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص کرسمس ڈے کی مبارک باد دے یا پھر صرف وہاں چلا جائے جہاں یہ منایا جاتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
نیز یہ بھی کہ اگر کوئی نئے سال کی مبارک باد دے یا ویلنٹائن ڈے کے موقع پر کسی لڑکی یا پھر اپنی بیوی کو پھول دے، تو اس کا کیا حکم ہے؟
اسی طرح اگر کوئی شخص عیسائیوں کے ملک میں رہتا ہے، پھر وہاں اس کو کرسمس کی مبارک باد کوئی ایسا شخص دیتا ہے ،جس کا درجہ وہاں خاص ہےیا کوئی عام شخص ہے، ان دونوں کے جواب میں کیا کہے؟تمام اجزاء کا جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ کرسمس ڈے منانا خالصتاً عیسائیوں کا طریقہ اور ان کا تہوار ہے، جس کو وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی یوم پیدائش کے طور پر مناتے ہیں۔
اسی طرح نئے سال کی خوشی منانا یہودیوں کا طریقہ ہے، اور ویلنٹائن ڈے (Valentine Day) کا تعلق زمانہ قدیم کی بت پرست رومیوں کے ایک مشرکانہ تہوار میں سے ہے۔
یہ ساری رسومات ان کے دیگر مفاسد کثیرہ (مثلا:اسراف، بے حیائی، بے حجابی، شراب نوشی اور عیاشی وغیرہ) کے ساتھ ساتھ غیر اسلامی مشرکانہ تہوار اور رسومات ہیں، جن کو منانا یا ان کے ساتھ شریک رہنا کسی مسلمان کی شایان شان نہیں، اور اسلام تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔
لہٰذا کرسمس ڈے کے موقع پر عیسائیوں کی تقاریب میں شرکت کرنا یا ان کو مبارک باد دینا جائز نہیں، البتہ اگر کسی جگہ پر ان کو جواب دینا مجبوری ہو تو کوئی ایسا لفظ کہہ دیا جائے، جس میں ان کے اس عقیدے کی تعظیم یا تائید کا پہلو موجود نہ ہو۔
اسی طرح نئے سال کی مباک باد دینا، دوست احباب کو کارڈ بھجوانا سب نا جائز ہے، اسی طرح ویلنٹائن ڈے منانا بھی جائز نہیں، اس لیے کہ جو جائز اور مباح کام ہیں، ان میں بھی اسلام نے اپنے پیروکاروں کو غیروں کی مشابہت سے منع کیا، تو جو کام شرعاً اور عقلاً نا جائز اور حرام ہوں ان میں ان کی مشابہت کیسے درست ہوسکتی ہے؟
لما في القرآن الکریم:
«یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَھودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَاء بَعْضُھمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّھُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْھمْ إِنَّ اللّہَ لاَ یَھْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْن». (سورۃ المائدۃ: 51)
وفي سنن أبي داؤد:
’’حدثنا عثمان بن أبي شیبۃ .......عن ابن عمر  رضي اللہ عنھماقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:من تشبہ بقوم فھومنھم‘‘.(کتاب اللباس، في لبس الشھرۃ:رقم الحدیث: 4031، ص:569، دار السلام)
وفیہ أیضًا:
’’حدثنا موسی بن إسماعیل ......عن أنس رضي اللہ عنہ قال:قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المدینۃ ولھم یومان یلعبون فیھما فقال: [ما ھذان الیومان]. قالوا کنا نلعب فیھما في الجاھلیۃ.فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:[إن اللہ قد أبدلکم بھما خیرًا منھما یوم الأضحی ویوم الفطر]‘‘. (باب صلاۃ العیدین،رقم الحدیث: 1134،ص:170، رشیدیۃ)
وفي البحر الرائق:
’’(والاعطاء باسم النیروز والمھرجان لا یجوز) أي:الھدایا باسم ھذین الیومین حرام بل کفر، وقال أبو حفص الکبیر رحمہ اللہ: لو أن رجلا عبد اللہ تعالی خمسین سنۃ ثم جاء النیروز وأھدی إلی بعض المشرکین بیضۃ یرید تعظیم ذلک الیوم، فقد کفر وحبط عملہ، وقال صاحب الجامع الأصغر: إذا أھدي یوم النیروز إلی مسلم آخر، ولم یرد بہ تعظیم الیوم ولکن علی ما اعتادہ بعض الناس لا یکفر، ولکن ینبغي لہ أن لا یفعل ذلک في الیوم خاصۃ، ویفعلہ قبلہ أو بعدہ لکي لا یکون تشبیھا بأولئک القوم، وقد قال:[من تشبہ بقوم فھو منھم].وقال في الجامع الأصغر:رجل اشتري یوم النیروز شیأا یشتریہ الکفرۃ منہ، وھو لم یکن یشتریہ قبل ذلک، إن أراد بہ تعظیم ذلک الیوم کما تعظمہ المشرکون کفر، وإن أراد الآکل والشرب والتنعم لا یکفر‘‘.(کتاب الخنثی، مسائل شتی: 361/9، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/311