چار الگ الگ رمضانوں میں بغیر کسی عذرکےروزہ توڑنے کاحکم

چار الگ الگ رمضانوں میں بغیر کسی عذرکےروزہ توڑنے کاحکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ایک آدمی قصداً رمضان کے مہینے میں بغیر کسی عذر کےرمضان کا روزہ توڑ دے ، اور تین مرتبہ رمضان میں روزے کی حالت میں بدکاری(زنا)کرے،تو کیا اس پر کفارہ ہوگا یا نہیں؟ اور کفارے میں پیسے دے سکتا ہے یا نہیں؟ اگر دے سکتا ہے ،تو کیا سارے ایک شخص کو دینا جائز ہے کہ نہیں؟
وضاحت: ٢٥ سال عمر ہے، تین مرتبہ بدکاری تین سال کے الگ الگ رمضان کے مہینے میں کی ہے۔

جواب

کسی عذر کے بغیر قصداً رمضان کا روزہ توڑنے سے قضاء اور کفارہ دونوں واجب ہوتے ہیں، صورت مسئولہ میں اس شخص نے الگ الگ رمضانوں کے چوں کہ چار روزے توڑے ہیں، تو لہذا اس پر چار کفارے لازم ہوں گے، کفارہ یہ ہے کہ ہر روزے کے بدلے دو مہینے مسلسل روزے رکھے، اگر ضعف یا مرض کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے، تو ساٹھ غریبوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے، چاہے ایک دن دو وقت کھلائے، چاہے ایک غریب کو دو وقت ساٹھ روز تک کھانا کھلائے، چاہے ساٹھ غریبوں کو کھانا دے دے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کے برابر یا اس کی قیمت دے دے، البتہ اگر ساٹھ غریبوں کو دینے کے بجائے ایک غریب کو دیدیا، تو کفارہ ادا نہیں ہوگا، مگر یہ کہ ساٹھ روز دے دے۔
لما في التنویر مع الرد:
’’وإن جامع أو جومع في أحد السبیلین أو أکل أو شرب غذاء أو دواء عمدا....... قضی وکفر ککفارۃ الظھار‘‘.
’’(قولہ: ککفارۃ الظھار) أي مثلھا في الترتیب فیعتق أولا، فإن لم یجد صام شھرین متتابعین، فإن لم یستطع أطعم ستین مسکینا‘‘.(کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في الکفارۃ: ٣/ ٤٤٢-٤٤٧:رشیدیۃ)
وفي البحر الرائق:
’’ولو جامع في رمضانین فعلیہ کفارتان وإن لم یکفر للأولی في ظاھر الروایۃ وھو الصحیح‘‘.(کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ٢/ ٢٨٤:رشیدیۃ)
وفي الھندیۃ:
’’لو أعطی عن کفارۃ ظھارہ مسکینا واحدا ستین یوما، کل یوم نصف صاع، جاز کذا في (الفتاوی السراجیۃ) ولو أعطی مسکینا واحدا کلہ في یوم واحد، لا یجزیہ إلا عن یومہ ذلک‘‘.(کتاب الطلاق، الباب العاشر في الکفارۃ، ١/ ٥٦٩:دار الفکر).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:87/ 176