کسی مذہبی یا سیاسی عالم دین کا شہادتیں وصول کرکے رمضان وعیدین کا حکم دینا

کسی مذہبی یا سیاسی عالم دین کا شہادتیں وصول کرکے رمضان وعیدین کا حکم دینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ملک میں خودمختار جید علماء کرام پر مشتمل تمام مسالک کی نمائندہ مرکزی کمیٹی کی موجودگی میں کسی عالم دین، مذہبی،سیاسی یا معاشرتی شناخت رکھنے وایل شخصیت کو کیا یہ حق حاصل ہے؟ کہ وہ اپنے طور پر رؤیت کی شہادتیں وصول کرنے بیٹھ جائیں اور پھر شہادتیں مجاز کمیٹی تک پہنچانے کے بجائے مقامی طور پر خود ہلال کی رؤیت اور رمضان وعیدین کا حکم صادر کریں؟
باوجود اس کے کہ اس طرح کا ماحول مہیا کرنے سے فسق وفجور کے اس عمومی دور میں جھوٹے گواہوں کو بھی جھوٹی گواہی کا موقع فراہم ہوگا اور اس کے نتیجے میں ملک میں عیدین اور رمضان کے مواقع پہ انتشار بھی پھیلے گا جیسا کہ بار بار مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔

جواب

مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی چوں کہ شرعی طور پر شہادت کے حاصل ہونے کے بعد اعلان کرتی ہے، لہٰذا اس کے تحت جو علاقے آتے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق عمل کریں، پاکستان کی مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر پاکستان کے تقریباً سب جید علمائے کرام اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں، لیکن رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کے معتبر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہر علاقے کے لوگ خاص کر علمائے کرام چاند دیکھنے کا اہتمام ترک کردیں، بلکہ اگر صوبائی وعلاقائی سطح پر معتمد علماء کرام پر مشتمل کمیٹی یا جماعت موجود ہو، جو حد احتیاط کی بناء پر شرعی گواہوں کی موجودگی میں فیصلہ کریں، تو صوبائی کمیٹی کے اعلان پر اہل علاقہ کو عمل کرنا درست ہے، لیکن ان کو چاہیے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کو اس کی اطلاع کردیں، تاکہ چاند دیکھنے کا اعلان پورے ملک کے لیے ہو اور اختلاف وانتشار سے بچا جاسکے، اسی طرح اگر مرکزی کمیٹی کا اعلان پہلے ہوجائے اور صوبائی وعلاقائی سطح پر مقرر کمیٹی کے سامنے چاند کا ثبوت نہ ہوا ہو، تو پھر بھی اس صوبہ اور علاقہ والوں کے لیے مرکزی اعلان پر عمل کرنا درست ہوگا، کیونکہ صوبہ اور علاقہ مرکزی کمیٹی کے زیر ولایت ہے۔
لما في البدائع:
’’وأما الذي یرجع إلی المکان فواحد وھو مجلس القضاء‘‘. (کتاب الشھادات:53/9،رشیدیۃ).
وفیہ أیضاً:
’’ھذا إذا کانت المسافۃ بین البلدین قریبۃ لاتختلف فیھا المطالع فأما إذا کانت بعیدۃ: فلا یلزم أحد البلدین حکم الآخر؛ لأن مطالع البلاد عند المسافۃ الفاحشۃ تختلف، فیعتبر في أھل کل بلد مطالع بلدھم دون البلد الآخر‘‘. (کتاب الصوم، 576/2، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/205