نماز کی نیت کرنے کا طریقہ

نماز کی نیت کرنے کا طریقہ

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہم نے بچپن میں فرض نماز کی نیت اس طرح یاد کی تھی اور ہمیشہ سے اس طرح نیت کرتے چلے آرہے ہیں،”دو رکعت نماز فرض واسطے اﷲ تعالی کے وقت فجر کا، رخ میرا کعبہ شریف کی طرف، پیچھے اس امام کے اﷲ اکبر، اور سنتوں کی بھی اسی طرح نیت کرتے تھے،لیکن کچھ عرصہ ہوا والدہ نے کہا کہ اس میں کچھ فرق ہے،مہربانی فرماکر نیت کا صحیح طریقہ لکھ دیں، وتروں اور نفل سب کی نیت لکھ دیں، تاکہ صحیح معلوم ہوجائے اور خدشہ بالکل نہ رہے۔

جواب

نیت میں اتنے لمبے چوڑے الفاظ کی ضرورت نہیں بلکہ زبان سے کہنا بھی ضروری نہیں،صرف دل کی نیت کافی ہوتی ہے ،یعنی دل میں اس کی تعین ہو کہ کیا پڑھنا چاہتا ہے،فرائض میں صرف ظہر اور عصر کی تعین کافی ہے، تعداد رکعت وغیرہ کی تعین بھی ضروری نہیں ،اسی طرح وتر میں بھی اور نفل، سنت اور تراویح میں تو مطلق نماز کی نیت کافی ہے، اگر زبان سے ہی کہنا چاہے تو اتنا کہہ دینا کافی ہے، ظہر کے فرض امام کے ساتھ پڑھتا ہوں۔

"وکفی مطلق نیة الصلاة وإن لم یقل: للہ، لنفل وراتبة وتراویح علی المعتمد؛ إذ تعیینھا بوقوعھا وقت الشروع، والتعیین أحوط، ولا بد من التعیین عند النیة……لفرض أنہ ظھر أو عصر…ولو الفرض قضاء……وواجب أنہ وتر أو نذر أو سجود تلاوة… دون تعیین عدد رکعاتہ لحصولھا ضمناً فلا یضر بالخطإ في عددھا وینوي المقتدي المتابعة الخ ".(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ۲: ۹۴- ۹۸، ط مکتبة زکریا دیوبند).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی