نمازِ فجر کی سنتوں کی قضاء کا حکم

نمازِ فجر کی سنتوں کی قضاء کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص صبح کی جماعت میں آکر شامل ہوتا ہے تو اس سے صبح کی سنتیں رہ جاتی ہیں ،کیا یہ شخص سنتیں سورج نکلنے کے بعد مذہب حنفی کے مطابق پڑھ سکتاہے یا نہیں؟

جواب

درمختار( ج۱،ص٥٣٠) کی ایک عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کی قضا نہیں ہے، مگر جب کہ فرض کے ساتھ ہو،اس صورت میں زوال سے پہلے پہلے قضا کرے اور اگر تنہا سنت فوت ہوں تو اس کی قضاء نہیں، امام ابوحنیفہؒ اور امام یوسفؒ تو کسی وقت بھی قضا کے قائل نہیں، نہ قبل طلوع شمس نہ  بعد طلوع الشمس البتہ امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ بعد طلوع شمس زوال سے پہلے پہلے قضا بہتر ہے۔

''وَمَا إذَا فَاتَتْ وَحْدَہَا فَلَا تُقْضَی قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ بِالْإِجْمَاعِ، لِکَرَاہَۃِ النَّفْلِ بَعْدَ الصُّبْحِ. وَأَمَّا بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ فَکَذَلِکَ عِنْدَہُمَا. وَقَالَ مُحَمَّدٌ: أَحَبُّ إلَیَّ أَنْ یَقْضِیَہَا إلَی الزَّوَالِ کَمَا فِی الدُّرَرِ. قِیلَ ہَذَا قَرِیبٌ مِنْ الِاتِّفَاقِ لِأَنَّ قَوْلَہُ أَحَبُّ إلَیَّ دَلِیلٌ عَلَی أَنَّہُ لَوْ لَمْ یَفْعَلْ لَا لَوْمَ عَلَیْہِ.''(رد المحتار، کتاب الصلوٰۃ ٢/٥٧، سعید)

''وقال محمد: یقضیہما بعد طلوع الشمس قبل الزوال وہو المختار، فإن أبا حنیفۃ، وأبا یوسف أیضاً لا یمنعان من القضاء بعد طلوع الشمس.'' (العرف الشذی علی حاشیۃ جامع الترمذی ١/٩٧، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی