ناجائز طریقہ سے گورنمنٹ سے حاصل کی ہوئی رقم کا حکم

ناجائز طریقہ سے گورنمنٹ سے حاصل کی ہوئی رقم کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک مسئلے کے متعلق تحریری فتوی چاہتا ہوں، میرے والد صاحب زراعت کے محکمہ میں سرکاری ملازم تھے، ان کو سرکاری مکان ملا ہوا تھا، والد کی زندگی میں ہم وہ مکان چھوڑ کر دوسری جگہ رہائش پذیر ہوگئے، اور وہ مکان سرکاری کرائے پر دے دیا، والد کے انتقال کے بعد والدہ بھی اپنی زندگی تک وہ مکان رکھ سکتی تھی، لہذا والدہ اپنی حیات تک اس مکان کا کرایہ لیتی رہی۔
جنوری 2008میں  والدہ کے انتقال کے بعد میں یعنی ان کا بیٹا وہ مکان گورنمنٹ کو واپس کرنا چاہ رہا تھا، مگر اس مکان کے کرایہ داروں کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا اور وہ مکان چھوڑنا نہیں چاہ رہے تھے، اس وقت وہ سیاسی جماعت کافی سرگرم اور مضبوط تھی، لہذا وہ مجھے اپنی جماعت کی طرف سے نقصان پہنچانے کی دھمکی دیتے تھے، تاکہ مکان خالی نہ کراؤں اور کرایہ لیتا رہوں، مجبورا والدہ کے انتقال کے بعد کئی سالوں 2016ء تک کرائے لیتے رہے، یہ کرائے ہمارے لئے حلال نہ تھے، تو ہم اس نیت سے لیتے رہے کہ کسی غریب کو بغیر ثواب کی نیت سے دے دیں گے۔ 2016کے بعد جب وہ سیاسی جماعت کمزوری ہوئی ،تو ہم نے دھکمیاں دے کرمکان خالی کرالیا، 2018ء سے ہم نے یہ جمع شدہ پیسے کرائے کے جو ہم نے خرچ کر دیئے تھے، تھوڑے تھوڑے کر کے مستحق غیریب لوگوں کو بغیر ثواب کی نیت سے دینے شروع کردیے، اب تک تقریبا 68100روپے دے چکے ہیں، بقایا ایک لاکھ چھیالیس ہزار رہتے ہیں/146000، اتنے روپے دینے کے بعد پھر ہم نے فون پر کسی دار الافتاء سے پھر معلوم کیا، تو وہ کہنے لگے کہ یہ پیسے آپ کو گورنمنٹ کو دینے چاہیے، جیسے ریل کا ٹکٹ لے کر پھاڑ دیں، ڈیم فنڈ میں دے دیں وغیرہ وغیرہ، یاد رہے کہ مکان ہم ڈائریکٹ سرکار کو واپس نہ کرسکے ہیں، کیوں کہ مکان خالی کرائے کی صورت میں مکان پر فوری قبضہ ہو جاتا ہے، لہذا کسی جاننے والے کو جو اسی محکمے میں تھا،اسے دے دیا کہ اپنے نام کرالے، اور زراعت کے محکمے کو یہ رقم واپس کرنا ابھی ممکن نہیں ہے، کیوں کہ مکان دوسرے بندے کے نام کروانے کا کہا ہے، اور گھمبیر مسائل ہیں، بہرحال اب اس رقم کی واپسی کس طرح کی جائے، غریب مستحق کو بغیر ثواب کی نیت سے دے دیں یا گورنمنٹ کو دیں، آپ رہنمائی کردیں، تاکہ ہمارے سر سے جلد یہ بوجھ اتر جائے مہربانی ہوگی۔

جواب

سرکاری مکان سے حاصل کیا ہوا کرایہ گورنمنٹ کی ملکیت کا نفع ہے اور شرعی اصول ہے کہ جس چیز کا مالک معلوم ہو، تو وہ مالک کو لوٹانا ضروری ہوتا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں رقم کی ادائیگی کی صورت یہ ہے کہ اصل مالک (حکومت) کے خزانے میں اس رقم کو جمع کردیں اور اگر حکومت کے خزانے میں جمع کرنا ممکن نہ ہو، تو کسی رفاہی کام میں خرچ کریں انشاء اللہ اس طرح کرنے سے آپ حضرات بری الذمہ ہوجائیں گے۔
لما في رد المحتار:
”والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه وإن كان مختلطًا مجتمعًا من الحرام ولا يعلم أربابه وشيئًا منه بعينه حل له حكمًا، والأحسن ديانة التنزه عنه“.(كتاب البيوع، مطلب فيمن ورثه مالاً حرامًا: 307/6:رشيدية)
وفيہ أيضًا:
”قال بعض مشايخنا: كسب المغنية كالمغصوب لم يحل أخذه، وعلى هذا قالوا: لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة ولا يأخذون منه شيئا وهو أوبى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق، إذا تعذرا الرد على صاحبه اھ“.(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع: 635/9:رشيدية)
وفي مجمع الأنهر:
’’(ويتصدق بالفضل) عند الطرفين حتى إذا غصب أيضًا فزرعها كرين، فأخرجت ثمانية أكرار و لحقه من المؤنة قدركر فإنه يأخذ منه أربعة أكرار ويتصدق بالباقي“.(كتاب الغصب: 81/4:رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/146