ممنوعہ اُمور سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حکم

ممنوعہ اُمور سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  آصف کی دکان ہے، لوگوں کو میموری کارڈ بھر کر دیتا ہے، ایک دن کاشف نے میموری کارڈ دے کر کہا کہ اس میں گانے، ڈرامے اور فلمیں ڈال کر دیدو، تو کیا آصف کا یہ کاروبار اور اس پر حاصل ہونے  والی آمدنی حلال ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ اگر زید میموری کارڈ وغیرہ میں غیر ممنوعہ اشیاء مثلا:نعت، تلاوت اور آڈیو تقاریر بھر کے دیتا ہو، اسی طرح غیر ممنوعہ تصاویر (غیر جاندار کی تصاویر) بھر کے دیتا ہو تو ایسا کاروبار کرنا بھی جائز ہے، اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال ہوگی۔
اور اگر وہ میموری کارڈ میں ممنوعہ اشیاء مثلا: جاندار کی تصاویر، ویڈیوز، گانے وغیرہ بھر کر دیتا ہو تو یہ کاروبار بھی ناجائز ہے اور اس کی آمدنی بھی حلال نہیں ہوگی۔
لما في روح المعاني:
’’قولہ تعالی:«ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان» فیعم النھي کل ماھو من مقولۃ الظلم والمعاصي، ویندرج فیہ النھي عن التعاون علی الاعتداء و الانتقام. وعن ابن عباس رضي اللہ تعالی عنھما وأبي العالیۃ: أنھما فسرا الإثم بترک ما أمرھم بہ، وارتکاب ما نھاھم عنہ، والعدوان بمجاوزۃ ما حدہ سبحانہ لعبادہ في دینھم، وفرضہ علیھم في أنفسھم، وقدمت التحلیۃ علی التخلیۃ مسارعۃ إلی إیجاب ماھہو المقصود بالذات.
وقولہ تعالی:«واتقوا اللہ» أمر بالاتقاء في جمیع الأمور التي من جملتھا مخالفۃ ما ذکر من الأوامر، والنواھي ویثبت وجوب الاتقاء فیھا بالطریق البرھاني‘‘.(الجزء الخامس،۵۷/۶: دار إحیاء التراث)
وفي الذخیرۃ البرھانیۃ:
قال أبو حنیفۃ رحمہ اللہ: لا تجوز الإجارۃ علی شيء من اللھو والمزامیر والطبل وغیرہ؛ لأنھا معصیۃ، والإجارۃ علی المعصیۃ باطلۃ؛ لأن الأجیر مع المستأجر یشترکان في منفعۃ فتکون ھذہ واقعۃ علی عمل ھو فیہ شریک‘‘.(کتاب الإجارات، الفصل التاسع، ما یجوز من الإجارۃ وما لا یجوز: ١١/ ٥٢٧:دار الکتب العلمیۃ).فقط. واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/164