مقتدی پر امام کی متابعت اقوال میں لازم ہے،یا افعال میں؟

مقتدی پر  امام کی متابعت اقوال میں لازم ہے،یا افعال میں؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ۱۔ مقتدی امام کی متابعت اقوال میں کرے گا، یا افعال میں؟  مطلب امام کے تکبیرتحریمہ ،تکبیرات انتقال اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ  کے الفاظ کہنے سے مقتدی متابعت کرے گا،یا امام کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر مقتدی امام کی متابعت کرے گا؟

۲۔امام کے تکبیرات انتقال کے شروع کرنے کے ساتھ ہی متصلا مقتدی اس کی متابعت میں ایک رکن سے دوسرے رکن میں جائے گا،یا جب امام دوسر ےرکن میں پہنچ کر ختم کرے گا،تب مقتدی اس کی متابعت میں ایک رکن سے دوسرے رکن میں جائے گا؟ مطلب امام جب قیام سے رکوع کی جانب جاتاہے،تو مقتدی امام کے اللہ اکبر کہنے کے ساتھ ہی متصلا امام کے پیچھے رکوع میں جائے گا؟ یا  امام جب رکوع کی ہئیت میں مکمل طور پر پہنچ جائے تب مقتدی امام کی متابعت میں قیام سے رکوع میں جائے گا؟

اسی طرح امام جب رکوع سے سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر سر اٹھائے گا،اور قومہ میں جائے گا،تو مقتدی امام کے رکوع سے سر اٹھاتے ہی (امام ابھی تک قومہ کی حالت میں نہیں پہنچا ہو)اس کے ساتھ متصلا اپنے رکوع سے سر اٹھائے گا؟ یا جب امام رکوع سے مکمل قومہ کی ہیئت میں مکمل طور پر پہنچ جائے تب مقتدی اپنی رکوع سے قومہ میں جائے گا؟

اسی طرح قومہ سے سجدہ کی حالت میں بھی یہی سوال ہے کہ امام جب اللہ اکبر کہہ کر سجدہ میں جائے گا،تو مقتدی امام کے اللہ اکبر کہنےکے ساتھ ہی متصلا سجدہ کی طرف جائے گا؟(جب کہ امام ابھی قومہ سے سجدہ کی ہیئت میں مکمل منتقل نہیں ہوا)

یا جب امام قومہ سے مکمل سجدہ کی ہیئت میں چلا جائے گا،تب مقتدی قومہ سے سجدہ میں جائے گا؟

اسی طرح مقتدی سلام کب پھیرے گا؟ امام جونہی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ شروع کردے تو اس کے متصلا ہی مقتدی بھی اپنا سلام پھیر دے؟ یا امام جب مکمل سلام پھیر دے گا تب مقتدی اپنا سلام پھیرے گا؟ اور مقتدی امام کے ایک طرف سلام مکمل پھیرنے  کا انتظار کرے گا،یا امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد ہی مقتدی سلام پھیرے گا؟

اسی طرح تکبیر تحریمہ میں بھی سوال ہے کہ مقتدی امام کے تکبیر تحریمہ شروع کرنے سے متصلا ہی اپنی تکبیر تحریمہ کہے گا ،یا جب امام تکبیر تحریمہ مکمل کہہ دےتو تب مقتدی تکبیرتحریمہ کہے گا؟

۳۔ اگر امام تکبیرات انتقال کو آہستہ کہے اور مقتدی اس کو سن سکے تو پھر مقتدی امام کے حرکات و سکنات سے اسکی متابعت کرے گا؟ نیز مقتدی امام کے ایک رکن سے دوسرے رکن کی ہیئت کو مکمل طور پر جانے کے بعد اس کی متابعت میں اس رکن میں جائے گا؟ یا جونہی امام نے ایک رکن سے دوسرے رکن کو انتقال شروع کیا تو مقتدی اس کی متابعت میں ایک رکن سے دوسرے میں انتقال شروع کردے گا؟

جواب

۱۔مقتدی کو اقوال اور افعال  دونوں میں امام کی اتباع کرنی چاہیے۔

۲۔اگرمقتدی کافعل امام کےفعل سےمتصل ہو،یعنی مقتدی کاتکبیرتحریمہ کہنا امام کے تکبیرتحریمہ کہنےسےملاہوا ہو،اور مقتدی کا رکوع میں جانا امام کے رکوع میں جانے سے ملا ہوا ہو،یامقتدی کا فعل امام کے فعل کے شروع کرنےکےبعدہو،یعنی مقتدی کاتکبیرتحریمہ کہنا امام کےتکبیرتحریمہ شروع کرنےکے بعدہو،اور مقتدی کا رکوع میں جانا ،امام کے رکوع شروع کرنےکےبعد ہو،اس طورپرکہ مقتدی امام سےپہلےرکن یاتکبیرکوختم نہ کرے،تو ان دونوں صورتوں میں نماز درست ہوجائےگی،لیکن افضل دوسری صورت (معاقبت) ہے۔

۳۔اگر امام تکبیرات انتقال آہستہ کہے،اورمقتدی اس کونہ سن سکے،تومقتدی امام کی اتباع امام کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر کرےگا،لیکن اس صورت میں بھی اتباع معاقبت کے طور پر کرےگا،یعنی مقتدی کا ہر فعل امام کےفعل سےمؤخر ہو۔

لمافي ردالمحتار:

والحاصل أن المتابعة في ذاتها ثلاثة أنواع، مقارنة لفعل الإمام، مثل أن يقارن إحرامه لإحرام إمامه، وركوعه لركوعه، وسلامه لسلامه، ويدخل فيها ما لو ركع قبل إمامه ودام حتى أدركه إمامه،فيه ومعاقبة لابتداء فعل إمامه مع المشاركة في باقيه،ومتراخية عنه فمطلق المتابعة الشامل لهذه الأنواع الثلاثة يكون فرضا في الفرض، وواجبا في الواجب،وسنة في السنة،عند عدم المعارض أو عدم لزوم المخالفة،كما قدمناه. ولا يشكل مسألة المسبوق المذكورة؛لأن القعدة وإن كانت فرضا لكنه يأتي بها في آخر صلاته التي يقضيها بعد سلام إمامه،فقد وجدت المتابعة المتراخية فلذا صحت صلاته،والمتابعة المقيدة بعدم التأخير والتراخي الشاملة للمقارنة والمعاقبة لا تكون فرضا،بل تكون واجبة في الواجب،وسنة في السنة،عند عدم المعارضة وعدم لزوم المخالفة أيضا،والمتابعة المقارنة بلا تعقيب ولا تراخ سنة عنده لا عندهما،وهذا معنى ما في المقدمة الكيدانية حيث ذكر المتابعة من واجبات الصلاة ثم ذكرها في السنن،ومراده بالثانية المقارنة كما ذكره القهستاني في شرحها .إذا علمت ذلك ظهر لك أن من قال إن المتابعة فرض أو شرط كما في الكافي وغيره أراد به مطلقها بالمعنى الذي ذكرناه،ومن قال:إنها واجبة كما في شرح المنية وغيره أراد به المقيدة بعدم التأخير،ومن قال،إنها سنة أراد به المقارنة،الحمد لله على توفيقه،وأسأله هداية طريقه.

(كتاب الصلاة،باب صفةالصلاة،مطلب:في تحقيق متابعةالإمام،2/204،ط:رشيدية)

وفي إعلاءالسنن:

والأفضل عندالإمام أبي حنيفة رحمه الله في المتابعةالمواصلةاي:المقارنةبفعل الإمام،وعندصاحبيه المعاقبة.قال في شرح المنية:والأفضل أن تكون تكبيرةالمقتدى مع تكبيرةالإمام لابعده عندأبي حنيفة رحمه الله،لأن فيه مسارعة إلى العبادة،وفيه مشقة،فكان أفضل وقالا:يكبرأي:الأفضل أن يكبرالمقتدي بعدتكبيرةالإمام،ليزول الإشتباه بالكلية(أي:إشتباه التقدم على الإمام)ويكون إبتداءالتكبير:وإنتهاؤه إقتداءبمن هوفي الصلاة،ولاخلاف في صحةكل من الأمرين من غيركراهةإلافي روايةعن أبي يوسف رحمه الله أنه لايصح شروعه إذاكبر مقارنا...وفي التاتارخانيةعن المنتقى:المقارنةعلى قوله الخ...وفي ردالمحتار:والحاصل أن المتابعةفي ذاتهاثلاثةالخ... ولعلك قدتلخص لك من هذه العبارات أمران الأول أن المقارنة بطريق المواصلةليست بواجبةعندنا...والثاني أن المواصلةسنةعندالإمام فقط دون صاحبيه،والسنةعندهما المعاقبة،والمختارللفتوى في الأفضليةقولهما...فقول أبي حنيفة رحمه الله في هذه المسئلة ليس بضعيف،كماظنه بعض الناس بل هوقوي رواية ودراية،نعم!ينبغي أن يختار للفتوى قول صاحبيه،كمافعله بعض المتأخرين من فقهائنا،لأن مواصلةالعوام بالإمام ربماتفصي إلى المبادرةالمنهى عنها،وأماالخواص الذين يأمنون ذلك،فالأفضل لهم العمل بقول الإمام،والعلم بالحقيقةعندالله الملك العلام.(باب وجوب متابعةالإمام،4/326-330،ط:إدارةالقران)

وفي التاتارخانية:

ثم الأفضل في تكبيرةالإفتتاح في حق المقتدي أن يكون تكبيره مع تكبير الإمام عند أبي حنيفة،وهوقول زفر رحمه الله ،وقال أبويوسف و محمدرحمهما الله،يكبربعد تكبيرالإمام.وفي المصفى:المقارنة على قوله كمقارنة حركة الخاتم والإصبع،والبعدية على قولهما:أن يوصل المقتدي همزة"الله"براء"اكبر"وتظهر فائدة الإختلاف في وقت إدراك الفضيلةتكبيرة الإفتاح،فعنده لايدركهامالم يكبرمع الإمام،وعندهما يدركها إذاكبر في وقت الثناء،والمقارنةفي الأفعال أفضل بالإجماع،وقيل الخلاف فيهاأيضا. (كتاب الصلاة،2/54،ط:فاروقية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر: 176/33،35