مروجہ گیارہویں شریف،کونڈے اور عرس کی شرعی حیثیت

مروجہ گیارہویں شریف،کونڈے اور عرس کی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ گيارہويں شريف، کونڈے، عرس وغيرہ کی کيا شرعی حیثيت ہے ؟ اور آج کل اس نام پر جو کچھ ہو رہا ہے کيا یہ دين اسلام کے مطابق ہے ،یا دين اسلام کے خلاف ہے؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ تینوں چیزوں کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں،ان میں سے گیارہویں  اور عرس تو محض بدعتیں ہیں، اور کونڈے کی رسم دشمنان صحابہ،حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر مناتے ہیں،اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اس دن حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تھے، جو کہ سراسر جھوٹ ہے،بلکہ حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی پیدائش تو رمضان میں ہوئی تھی اور 22 رجب المرجب کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تھا، اور یہ لوگ اس دن خوشیاں مناتے ہیں، جس میں ہمارے بعض مسلمان بھائی بھی ناواقفیت کی وجہ سے شریک ہوتے ہیں،لہٰذا ان تمام بدعتوں سے خود بھی بچنا چاہیے، اور دوسروں کو بھی ان تمام بدعتوں سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
لما في مرقاۃ المفاتیح:
’’وعنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول:لاتجعلوا بیوتکم قبورا، ولاتجعلوا قبري عیدا، وصلوا علي، فإن صلاتکم تبلغني حیث کنتم‘‘.
(ولاتجعلوا قبري عیدا) ھو واحد الأعیاد، أي: لاتجعلوا زیارۃ قبري عیدا، ولا تجعلوا قبري مظھر عید، فإنہ یوم لھو وسرور، وحال الزیارۃ خلاف ذلک........قال الطیبي: نھاھم عن الاجتماع لھا اجتماعھم للعید نزھۃ وزینۃ، وکانت الیھود والنصاریٰ تفعل ذلک بقبور أنبیائھم فأورثھم الغفلۃ والقسوۃ، ومن عادۃ عبدۃ الأوثان أنھم لایزالون یعظمون أمواتھم حتی اتخذوھا أصناما‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی النبيﷺ وفضلھا،الفصل الثاني:13/3،رشیدیۃ).
وفي الاعتصام:
’’ومنھا:التزام الکیفیات والھیئات المعینۃ، کالذکر بھیئۃ الاجتماع علی صوت واحد، واتخاذ یوم ولادۃ النبيﷺ عیداً، وما أشبہ ذلک‘‘.(الباب الأول، في تعریف البدع وبیان معناھا:25/1،دارالمعرفۃ).
وفي وفیات الأعیان:
’’أبو عبداللہ جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زین العابدین بن الحسین بن علي بن أبي طالب رضي اللہ عنھم أجمعین.....وکانت ولادتہ سنۃ ثمانین للھجرۃ، وھي سنۃ سیل الجحاف،وقیل:بل ولد یوم الثلاثاء قبل طلوع الشمس ثامن شھر رمضان سنۃ ثلاث وثمانین‘‘.(حرف الجیم،جعفر الصادق:307/1،دارالکتب العلمیۃ).
وفي الاستیعاب:
’’قال الولید بن مسلم:مات معاویۃ في رجب سنۃ ستین، وکانت خلافتہ تسع عشرۃ سنۃ ونصفاً.وقال غیرہ: توفي معاویۃ بدمشق ودفن بھا یوم الخمیس لثمان بقین من رجب سنۃ تسع خمسین‘‘.(حرف المیم،باب معاویۃ:247/3،دارالکتب العلمیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/205