محفل میلاد اور چراغاں کرنےکی شرعی حیثیت

محفل میلاد اور چراغاں  کرنےکی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ۱۔۱۲/ربیع الاول کو اس کے علاوہ اور بھی کئی قسم کی رسومات ہوتی ہیں، مثلاً :جلسے جلوس نکالنا، محافل میلاد منعقد کرنا، مٹھائیاں تقسیم کرنا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ بعض لوگ ان تمام کاموں کو جائز اور ثواب سمجھتے ہیں حتی کہ بعض لوگ محافل میلاد کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نعوذ باﷲ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم خود بنفس نفیس ان محافل میں تشریف لائے ہیں،ایسا عقیدہ رکھنے والوں اور ان تمام رسومات کے کرنے کو جائز اور ثواب سمجھنے والوں کے متعلق شریعت مطہرہ ہم لوگوں کو کیا حکم دیتی ہے، اور کیا یہ کام صحابہ کرام ؓیا تابعین و تبع وتابعین ؒکے دور میں بھی ہوا کرتے تھے، یا یہ کہ تمام کام ان کے بعد کی پیداوار ہیں؟

۲۔ ایک یہ رسم دیکھنے میں آئی ہے کہ ربیع الاول کے مہینہ میں گھروں ، دکانوں اور مساجد میں چراغاں کیا جاتا ہے ،جس کو ثواب سمجھا جاتا ہےاوراس میں حضور کی تعظیم سمجھی جاتی ہے، کیا یہ بھی صحابہ وتابعین کے زمانہ میں تھا یا بعد کی پیداوار ہے،یہ تمام مسائل براہِ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلّل بیان فرمائیں،تاکہ امت کی رہنمائی کی جاسکے۔

جواب

۱،۲۔   ۱۲/ربیع الاول کو چراغاں کرنا اگر خیر وبرکت کی چیز ہوتی تو خود حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اس کو ضرور بیان فرما دیتے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پرجان نچھاور کرنے والے صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی علیہم أجمعین دل کھول کر چراغاں کرتے، لیکن ایسا نہیں کیا اور نہ اس کا حکم دیا اور نہ کسی تابعی اور تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین میں سے کسی نے چراغاں کیا اور نہ اس کی اجازت مرحمت فرمائی، خیر القرون میں چراغاں نہ کرنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اس رات چراغاں کرنا ثواب نہیں ہے، لہٰذا اس عمل کو ذریعہ ثواب وقرب سمجھنا بدعت ومعصیت ہے یہی وجہ ہے کہ حضرات فقہاء کرام رحمھم اﷲ تعالیٰ نے متبرک راتوں میں چراغاں کرنے کو بدعت وحرام اور آتش پرستوں کے ساتھ مشابہ قرار دیا ہے۔

معاشرے میں جو رسومات پائی جاتی ہیں، ان میں سے ایک رسم عید میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی ہے، جو ۱۲/ ربیع الاول کو بڑی شان وشوکت سے منائی جاتی ہے ، جلوس نکالے جاتے ہیں، محفل میلاد منعقد کی جاتی ہے، مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں خوشیاں منائی جاتی ہیں اور اس میں بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضو راقدس صلی اﷲ علیہ وسلم بذات خود اس محفل میں شریک ہوتے ہیں،جب کہ یہ ساری باتیں قرآن وسنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں، لہٰذا مروجہ عید میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم بدعات اور بے شمار منکرات ورسومات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز واجب الترک ہے،اﷲ تعالیٰ ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، بدعات اور خرافات سے بچائے ۔آمین۔

قال العلامۃ ابن تیمیۃ رحمہ اﷲ تعالیٰ:" وكذلك ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصارى في ميلاد عيسى عليه السلام، وإما محبة للنبي صلى الله عليه وسلم، وتعظيماً. والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد، لا على البدع- من اتخاذ مولد النبي صلى الله عليه وسلم عيداً. مع اختلاف الناس في مولده. فإن هذا لم يفعله السلف، مع قيام المقتضي له وعدم المانع منه لو كان خيراً. ولو كان هذا خيراً محضا، أو راجحاً لكان السلف رضي الله عنهم أحق به منا، فإنهم كانوا أشد محبة لرسول الله صلى الله عليه وسلم وتعظيماً له منا، وهم على الخير أحرص. وإنما كمال محبته وتعظيمه في متابعته وطاعته واتباع أمره، وإحياء سنته باطناً وظاهراً، ونشر ما بعث به، والجهاد على ذلك بالقلب واليد واللسان. فإن هذه طريقة السابقين الأولين، من المهاجرين والأنصار، والذين اتبعوهم بإحسان. ''. (اقتضاء الصراط المستقیم، ص:٣٠٦۔٣٠٧، مکتبہ نزار مصطفی الباز المکۃ المکرمۃ)

قال العلامۃ ابن امیر الحاج رحمہ اﷲ تعالی: ''ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادھم أن ذلک من أکبر العبادات وإظہار الشعائر مایفعلونہ فی شھر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ،فمن ذلک استعمالھم المغانی ومعھم الات الطرب من الطار المصر صر والشبابۃ وغیر ذلک مما جعلوہ الۃ للسماع، ومضوا فی ذلک علی العوائد الذمیمۃ فی کونھم یشتغلون فی أکثر الأزمنۃ التی فضلھا اﷲ وعظمھا ببدع ومحرمات''. (المدخل، فصل فی المولد:١/٢٢٩، دارالکتب العلمیہ بیروت)

قال شیخ الإسلام ابن تیمیۃ رحمہ اﷲ تعالی: '' وبمنزلۃ من یزخرف المسجد ولایصلی فیہ قلیلاً، وبمنزلۃ من یتخذ المسابح والسجادات، وأمثال ہذہ الزخارف الظاہرۃ التی لم تشرع، ویصحبہا من الریاء والکبر والاشتغال عن المشروع مایفسد حال صاحبہا، کما جاء فی الحدیث: '' ماساء عمل أمۃ قط إلا زخرفوا مساجدہم.'' (إقتضاء الصراط المستقیم، فصل فی تعظیم یوم لم تعظمہ الشریعۃ أصلاً، ص:٣٠٧دارالمعرفۃ بیروت)

'' وسئل نفع اﷲ بہ: عن حکم الموالد والأذکار التی یفعلھاکثیر من النسا فی ھذا لازمان ھل ھی سنۃ أم فضیلۃ أم بدعۃ؟۔۔۔۔۔۔ فأجاب بقولہ:الموالد والأدکار التی تفعل عندنا أکثرھا مشتمل علی خیر کصدقۃ وذکر وصلاۃ وسلام علی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مدحہ، وعلی شربل شرور لو لم یکن منھا إلا رؤیۃ النسآء للرجال الأجانب، بعضھا لیس فیھا شرلکنہ قلیل نادر، ولاک أن القسم الأول ممنوع للقاعدۃ المشھورۃ المقررۃ أن در المفاسد مقدم علی جلب المصالح فمن علم وقوع شیء من الشر فیھما یفعلہ من ذلک فھوعا آثم، وبفرض أنہ عمل فی ذلک خیراً، فربما خیرہ لایساء ی شرہ، الخ ( الفتاوی الحدیثیۃ، مطلب الإجتماع للموالد والأذکار.٢٠٢، قدیمی)
''ومنھا: التزام الکیفیات، والھیئات المعینۃ کالذکر بھیئۃ الاجتماع علی صوت واحد، واتخاذ یوم ولادۃ النبی۔ صلی اﷲ علیہ وسلم عیداً وما أشبہ ذلک. ( الاعتصام: باب فی تعریف البدع وبیان معناھا١/٢٥، دارالفکر).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی