لانچ میں قصر نماز پڑھنے کا حکم

لانچ میں قصر نماز پڑھنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ بندہ ایک لانچ میں ملازم ہے او راکثر حالتِ سفر میں رہتا ہے، لیکن ایک جگہ لانچ رکتی بھی نہیں ہے ،بیس دن او رکبھی اس سے کم عرصہ تک یہی حالت رہتی ہے، دریافت طلب بات یہ ہے کہ ان ایام کو نماز پوری پڑھنی ہو گی یا قصر کرنا ہو گا؟راہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسؤلہ میں اگر آپ اڑتالیس میل جاتے ہیں،یا  اس کی نیت ہو تو مسافر ہوں گے اور قصر کی نماز ادا کریں گے اور اگر اس سے کم ہو گا تو مسافر شمار نہیں ہوں گے۔

''أَطْلَقَ فِی دُخُولِ مِصْرِہِ فَشَمَلَ مَا إذَا نَوَی الْإِقَامَۃَ بِہِ أَوْ لَا، وَشَمَلَ مَا إذَا کَانَ فِی الصَّلَاۃِ کَمَا إذَا سَبَقَہُ حَدَثٌ، وَلَیْسَ عِنْدَہُ مَاء ٌ فَدَخَلَہُ لِلْمَاء ِ وَالْمَذْکُورُ فِی الْخَانِیَّۃِ وَالظَّہِیرِیَّۃِ وَغَیْرِہِمَا أَنَّہُ إذَا رَجَعَ لِحَاجَۃٍ نَسِیَہَا ثُمَّ تَذَّکَّرہَا، فَإِنْ کَانَ لَہُ وَطَنٌ أَصْلِیٌّ یَصِیرُ مُقِیمًا بِمُجَرَّدِ الْعَزْمِ عَلَی الرُّجُوعِ.'' (البحرالرائق، باب صلاۃ المسافر،٢/٢٣١، رشیدیۃ)

''من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً میسرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیھا من أقصر أیام السنۃ.''(تنویر الأبصار مع الدر المختار، کتاب الصلوٰۃ ٢/١٢١،١٢٣، سیعد)

''(قَوْلُہُ حَتَّی یَدْخُلَ مِصْرَہُ أَوْیَنْوِیَ الْإِقَامَۃَ نِصْفَ شَہْرٍ فِی بَلَدٍ أَوْ قَرْیَۃٍ)وَقَیَّدَ بِنِصْفِ شَہْرٍ؛لِأَنَّ نِیَّۃَ إقَامَۃِ مَادُونَہَالَاتُوجِبُ الْإِتْمَامَ.''(البحرالرائق،باب صلاۃ المسافر ٢/٢٣٢،رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی