كرایہ کے گھر میں تعمیراتی کام پر لگنے والے پیسے کس کے ذمہ ہونگے؟

 كرایہ کے گھر میں تعمیراتی کام پر لگنے والے پیسے کس کے ذمہ ہونگے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک  صاحب نے اپنے بیٹے کو اس کے مطالبہ کرنے پر اس کے حصےکا مکان اسے دیدیا، اس طرح باقی بیٹوں کو بھی ان کے حصے کا مکان دیدیا ہے، بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے مکان میں بطور کرایہ دار کے گزشتہ دس سال سے ہےاور دس سال کا کرایہ ادا نہیں کیا، اب والد نے اپنے بیٹے کو مکان خالی کرنے کا کہا ہے اور اپنے چھوٹے بیٹے کو  (جس کا وہ گھر ہے) اسے اس گھر میں جانے کے لئے کہا ہے، بڑا بھائی جو کہ کرائے  پر ہے، اس نے تیس لاکھ کا مطالبہ کیا ہے کہ پندرہ لاکھ روپے چھوٹا بھائی دے اور پندرہ لاکھ روپے والد صاحب دیں۔
لہذا اس صورت میں کیا کیا جائے؟ چھوٹے بھائی کو اس كاگھر کس طرح دلوایا جائے؟ جب کہ بڑے بھائی نے اپنی مرضی سے اس مکان میں تقریبا دس لاکھ روپے کا تعمیراتی کام  کروایا ہے، اس دس لاکھ روپے کا مالک مکان یعنی چھوٹے بھائی سےبڑا بھائی مطالبہ کرسکتا ہے؟ٍ

جواب

صورت مسئولہ میں والدنے جب ہر بیٹے کو ان کے حصے کا مکان دیدیا، تو ہر ایک بیٹے کو چاہیے کہ وہ اپنے حصے کے مکان  میں رہے، لہذا بڑا بھائی جو دس سال سے اپنے چھوٹے بھائی کے مکان میں بحیثیت کرایہ دار کے رہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ چھوٹے بھائی  کو اس کے مکان کا کرایہ ادا کرے، اور وہ جو تیس لاکھ کا مطالبہ کرتا ہے، یہ بھی اس کے لیے جائز نہیں۔
باقی بڑے  بھائی نے اپنی مرضی سے چھوٹے بھائی کے مکان جو تعمیراتی کام کروایا ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ کرایہ دار سے کہاں جائے کہ وہ اپنی تعمیرات وہاں سے ہٹاکر زمین خالی کرے، یا تعمیر کی قیمت ملبہ کی صورت میں مالک زمین کرایہ دار کو دیدے اور مکان کا مالک ہوجائے۔
لما في التنزيل:
«يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم ولا تقتلوا أنفسكم إن الله كان بكم رحيما».(سورة النساء: 29)
وفي مسند الإمام أحمد:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لا يحل لامرئ من مال أخيه إلا ما طابت نفسه“.(رقم الحديث: 15488: مؤسسة الرسالة)
وفي بذل المجهود:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” إن الله تعالى قد أعطى كل ذي حق حقه، أي: أظهر لكل ذي حق ما هو له من النصيب“.(كتاب الإجارة، باب في تضمين العاريه: 289/11: دار البشائر الإسلامية)
وفي التنوير مع الدر:
’’(فإن مضت المدة قلعها وسلمها فارغة) لعدم نهايتها (إلا أن يغرم له المؤجر قيمته) أي: البناء والغرس (مقلوعا) بأن تقوم الأرض بهما وبدونهما فيضمن ما بينهما. (ويتملكه أو يرضى) المؤجر عطفًا على يغرم (بتركه، فيكون البناء، والغرس لهذا والأرض لهذا)‘‘.(كتاب الإجارة، باب ما يجوز وما يكون خلافا فيها، 9/ 50،51: رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/348