قریہ صغیرہ میں نماز جمعہ وعیدین کا حکم

قریہ صغیرہ میں نماز جمعہ وعیدین کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے خاران میں بازار سے تقریبا تیرہ کلو میٹر سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر مختلف بستیاں آباد ہیں، جو بستیاں آپس میں ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہیں، کوئی دو کلو میٹر، کوئی سات سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں، اور ان بستیوں میں سے بعض بستیاں سو افراد، بعض ایک سو پچاس افراد پر اور بعض تین سو سے پانچ سو افراد پر مشتمل ہیں اور ان بستیوں میں سے ہر ایک میں ایک یا دو دکانیں پرچون کی ہیں، اس کے علاوہ اور دکانیں نہیں ہیں۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ ان بستیوں میں سے ہر ایک میں جمعہ کی نماز ادا کی جا رہی ہے ، آیا ان بستیوں میں سے کسی بستی میں جمعہ کی نماز ادا کرنا درست ہے؟ اگر درست ہے تو باقی بستیوں میں جمعہ کی نماز ادا کرسکتے ہیں یا نہیں؟
اگر ان بستیوں میں سے کسی بھی بستی میں جمعہ کی نماز ادا کرنا درست نہیں ،تو جمعہ کی نماز ختم کر کے ظہر کی نمازوں کی قضاء کریں یا نہیں؟نیز ان بستیوں میں عید کی نماز بھی ادا کی جاتی ہے، تو کیا عید کی نماز ان بستیوں میں ادا کرنا درست ہے یا نہیں؟

جواب

نماز جمعہ وعیدین کی صحت وجواز کے لیے حضرات احناف رحمہم اللہ نے مصر، فناء مصر یا قصبہ کا ہونا شرط قرار دیا ہے، جب کہ قریہ صغیرہ میں حضرات احناف رحمہم اللہ کے نزدیک نماز جمعہ وعیدین جائز نہیں، البتہ قریہ کبیرہ میں چند شرائط وعلامات موجود ہونے کی وجہ سے نماز جمعہ وعیدین جائز ہے۔
عصر حاضر میں نماز جمعہ وعیدین کے جواز اور صحت کے لیے حضرات احناف رحمہم اللہ نے کچھ علامات اور شرائط ذکر کی ہیں، کہ اس قریہ کی آبادی چار ہزار یا اس سے زیادہ ہو، مختلف محلے ہوں، گلی کوچے ہوں، پختہ مکانات کافی تعداد میں بنائے گئے ہوں، کثرت سے دکانیں ایک ساتھ متصل جو بازار کی شکل میں ہوں، ضروریات زندگی کے لیے گاؤں کے رہائش پذیر لوگوں کے علاوہ قرب وجوار کے لوگ اسی قریہ کی طرف رجوع کرتے ہوں۔
صورت مسئولہ میں ذکر کردہ بستیوں میں مذکورہ بالا علامات کے نہ پائے جانے کی وجہ سے جمعہ وعیدین کی نماز پڑھنا جائز نہیں، بلکہ ظہر کی نماز باجماعت پڑھنی چاہیے۔
نیز مذکورہ بستیوں میں جمعہ کی نماز پڑھنے سے ظہر کی نماز ذمہ سے ساقط نہیں ہوئی، اس لیے گزشتہ نمازوں کی قضاء لازم ہے۔
لما في الدر مع الرد:
’’(ویشترط لصحتھا) سبعۃ أشیاء:الأول:(المصر وھو ما لا یسع أکبر مساجدہ أھلہ المکلفین بھا) وعلیہ فتوی أکثر الفقھاء....وعبارۃ القھستاني: وتقع فرضًا في القصبات والقری الکبیرۃ التي فیھا أسواق، قال أبو القاسم: ھذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو اقلاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعۃ .........أنہ لا تجوز في الصغیرۃ التي لیس فیھا قاض ومنبر وخطیب کما في المضمرات، والظاھر أنہ أرید بہ الکراھۃ لکراھۃ النفل بالجماعۃ، ألا تری أن في الجواھر:لو صلوا في القری لزمھم أداء الظھر‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ:6/3، رشیدیۃ)
وفي المبسوط:
’’وظاہر المذھب في بیان حد المصر الجامع:أن یکون فیہ سلطان، أو قاض لإقامۃ الحدود وتنفیذ الأحکام، وقد قال بعض مشایخنا رحمھم اللہ تعالی:أن یتمکن کل صانع أن یعیش بصنعتہ فیہ ولا یحتاج فیہ إلی التحول إلی صنعۃ أخری‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ:22/1، الحبیبیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/343