قرآن سنانے پر اجرت لینا

قرآن سنانے پر اجرت لینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ۱۔ایک حافظ قرآن ہے ،وہ رمضان المبارک میں تراویح کے اندر قرآن کریم سنا کر اس پر کچھ اجرت مثلاً روپے یا کپڑا وغیرہ لے سکتا ہے یا نہیں؟ اگرنہیں لے سکتا تو اس کی وجہ کیا ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کوئی طالب علم ہو، یا غریب ہو وہ تو لے سکتا ہے، ورنہ نہیں۔

۲- ایک حافظ ایسا ہے کہ وہ خود تو نہیں لیتا، لیکن اس کا باپ اس کو کہتا ہے کہ تم پیسے لو، اگر وہ نہیں لیتا تو باپ ناراض ہوتا ہے ،یا  اس کے لیے لینا جائز ہو گا یا نہیں؟

جواب

۱۔ رد المختار جلد ۵ص ۲۸  کی ایک عبارت سے معلوم  ہوتا ہے کہ اجرت لے کر قرآن پڑھنا اور پڑھوانا گنا ہ ہے، لہٰذا کسی کے لیے بھی جائز نہیں کہ قرآن سنا نے پر اجرت لے،خواہ وہ غریب ہو، یا امیر طالب علم ہو یا کوئی اور، اگر کوئی شخص بلا اجرت پڑھنے والا نہ ملے، تو جس قدر سورتیں محلہ والوں کو یاد ہوں، ان سے تراویح پڑھنا اس سے بہتر ہو گا کہ اجرت دے کر کسی سے پڑھوائیں، کیوں کہ پورا قرآن تراویح میں پڑھنا مستحب ہے اور اجرت دے کر قرآن پڑھوانا او رپڑھنا گناہ ہے او رگناہ سے بچنا بہ نسبت مستحب پر عمل کرنے کے زیادہ ضروری ہے۔

۲۔ایسے معاملات میں والدین کی بات نہیں ماننی چاہیے اور ان کی ناراضگی کی بھی اس وجہ سے پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ معصیت کےکاموں میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔

''لمافی الشامیۃ:قولہ( وَلَا لِأجل الطَّاعَاتِ) الْأَصْلُ أَنَّ کُلَّ طَاعَۃٍ یَخْتَصُّ بِہَا الْمُسْلِمُ لَا یَجوز الِاسْتِئْجَار عَلَیْہَا عنْدَنَا لقولہ - عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ - اقْرَء ُوا الْقُرْآنَ وَلَا تَأْکُلُوا بہ وفی آخرِ ما عَہِد رسُولُ اللَّہِ - صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - إلَی عمرو بْن الْعَاص وَإِن اُتُّخِذْت مُؤَذِّنًا فَلا تَأْخُذ عَلَی الْأَذان أَجْرا وَلِأَنّ الْقُرْبَۃَ مَتَی حَصَلَت وَقَعَت عَلَی الْعَامِل وَلِہَذَا تَتَعَیَّنُ أَہْلِیَّتُہ، فَلَا یَجُوز لَہ أَخْذ الْأُجْرَۃ مِن غَیْرہ کَمَا فِی الصَّوْمِ وَالصَّلَاۃِ ہِدَایَۃٌ.'' (رد المحتار، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ ٩/٢٣، حقانیہ)

'' وذکرت أیضاً أن الناس الیوم لا یدفعون المال، والمال فی مقابلۃ ذلک العمل وعلی ظن وصول ثوابہ الیھم لا علی أنہ تبرع وصلۃ لذلک العامل سواء عمل أولم یعمل وقد صرح ائمتنا وغیرہم بأن القاری للدنیا لاثواب لہ والآخذ والمعطی آثمان. (مجموعۃ رسائل ابن عابدین،۱/۱۷۱، سہیل اکیدیمی، لاہور).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی