قرآن خوانی پر پیسے لینے یا کھانا کھانے کا حکم

قرآن خوانی پر پیسے لینے یا کھانا کھانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ لوگ حفظ کے طلبہ کرام کو گھروں میں قرآن خوانی کے لیے لے جاتے ہیں، یہ لے جانا کیسا ہے؟ اور پھر وہاں کبھی کھانا تیار کرتے ہیں او رکبھی رقم دے دیتے ہیں، یہ کھانا کھانا اور رقم لینا درست ہے یا نہیں؟

جواب

واضح ہوکہ مطلقاً قرآن خوانی خواہ ایصالِ ثواب کے لیے ہو، یا کسی دنیوی مقصد، مثلاً: خیر وبرکت یا حصولِ شفاء کے لیے ہو، جس میں طلبہ کو بلایا اور جمع کیا جاتا ہے، یہ رسم بن چکی ہے اور اس میں کئی مفاسد ہیں، لہذا یہ مکروہ اور بدعت ہے، پھر اس میں طعام کا انتظام یا رقم کا لین دین، یہ اجرت کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، کھانے یا رقم دینے کی صورت میں ثواب نہ ملے گا، بلکہ دونوں گنہگار ہوں گے۔
اور کسی دنیوی مقصد، مثلاً مرض کی شفاء کے لیے، یا کسی مقدمہ میں کامیابی کے لیے، اجتماع کا اہتمام کیے بغیر قرآن مجید کی تلاوت کرنا درست ہے، چوں کہ یہاں تحصیلِ ثواب مقصود نہیں، بلکہ دوسرا کام مقصود ہے، لہذا اس پر اجرت لینا اور کھانا کھانا بھی درست ہے، لیکن اس کے لیے طلبہ کو گھروں میں بلانا ضروری نہیں، خود اہلِ خانہ پڑھ لیں اور جو قریبی عزیز وغیرہ بغیر بلائے آجائیں، وہ بھی ساتھ پڑھ سکتے ہیں، بلکہ صرف ایک مسلمان بھی اگر اس مقصد کے لیے قرآن خوانی کرلے تو کافی ہے۔
ایسے ہی نئے مکان یا نئی دکان کی خیر وبرکت کے لیے بھی اہتمامِ اجتماع کے بغیر، قرآن مجید پڑھنا جائز ہے، ایسے موقع پر حاضرین کو بطور خوشی کھانا کھلانا بھی جائز ہوگا، اور اجرت لینے کی بھی گنجائش ہے، البتہ زیادہ احتیاط اجرت نہ لینے میں ہے، تاکہ محض تلاوت کا ذریعہ کمائی بننا لازم نہ آئے، اس کے لیے بھی تداعی اور اجتماع کا اہتمام، شرعی طریقہ نہیں، بلکہ جو وہاں موجود ہوں، وہ تلاوت کرلیں۔
لما في رد المحتار:
’’و(یکرہ) اتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام أو الإخلاص، والحاصل: أن اتخاذ الطعام عند قراء ۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراھۃ الضیافۃ من أھل المیت، ٣/ ١٧٦: رشیدیۃ)
وفیہ أیضا:
’’إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقارئ....... ویمنع القارئ للدنیا، والآخذ والمعطی آثمان‘‘.(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب تحریر مھم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ والتھلیل ونحوہ مما لا ضرورۃ إلیہ: ٩/ ٩٥: رشیدیۃ).
وفي رد المحتار أیضا:
’’فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز...... ولولا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ھذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ إلی جمع الدنیا، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون‘‘.(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب تحریر مھم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ والتھلیل ونحوہ مما لا ضرورۃ إلیہ: ٩/ ٩٥:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:174/339