قبر سے شفاء کے لئے نمک، کپڑا وغیرہ لینے کا حکم

قبر سے شفاء کے لئے نمک، کپڑا وغیرہ لینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لوگ قبروں پر نمک یا کپڑا رکھتے ہیں اور لوگ اس نمک کو شفاء حاصل ہونے کی غرض سے کھاتے ہیں اور اس طرح اس کپڑے سے کچھ کپڑا پھاڑ کر اپنے ہاتھ یا پاؤں پر باندھ دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ فلاں بزرگ کی قبر کا نمک یا کپڑا ہے، یہ فلاں بیماری کے لئے شفا ہے، اس سے کبھی کبھار صحت یاب بھی ہوجاتے ہیں، اسی طرح بعض لوگ کسی بزرگ آدمی کی قبر سے کنکر اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، پھرجب وہ شخص یا کوئی جانور وغیرہ بیمار ہوجاتا ہے، تو اس کنکر کو پانی میں ڈال کر اس مریض یا جانور وغیرہ کو پلا دیتے ہیں، اور اس سے اکثر صحت یاب بھی ہوجاتے ہیں، ان سب کا شرعا کیا حکم ہے؟
اگر اس کو کوئی روکنا چاہے، تو وہ غصہ ہوجاتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس سے پہلے سب لوگ اس طرح کرتے تھے ،علماء بھی کچھ نہیں کہتے تھے، یہ صرف آج کل کے علماء منع کرتے ہیں، اسی طرح اگر کسی کی اولاد نہ ہورہی ہو، تو دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ کی قبر پر مسلسل سات جمعے جاؤ، تو آپ کی اولاد ہوگی، اس طرح کرنا کیسا ہے؟

جواب

امام کو اس کی امامت کے عوض میں زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوتی اور نہ ہی امام کے لئے اس کا لینا جائز ہے، چاہے وہ فقیر ہو یا مالدار، ایسی زکوۃ کا دوبارہ ادا کرنا ضروری ہے، البتہ اگر امام کی تنخواہ مقرر ہو اور وہ مستحق زکوۃ بھی ہو، تو ایسے امام کو امامت کا عوض شمار کیے بغیر زکوۃ ادا کرنے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی، یہی حکم صدقۃ الفطر کا بھی ہے۔

سوال میں مذکور جملہ امور ناجائز اور حرام ہیں، اس لئے کہ صحت وتندرستی اللہ تعالی کی قدرت واختیار میں ہے، کسی ولی، پیر، بزرگ کا اس میں کوئی اختیار نہیں، اگر کوئی شخص اللہ تعالی کے علاوہ کے لئے اس کا اعتقاد رکھے، تو اس سے ایمان جاتا رہتا ہے، اسی طرح اولاد بھی اللہ تعالی جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے، اللہ تعالی کے علاوہ کسی کا کچھ بھی اختیار نہیں ہے، لہذا ان جیسے افعال واعتقادات سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔
لما في أحكام القرآن للقرطبي:
«وإذا مرضت فهو يشفين»
’’قال: (مرضت) رعاية للأدب وإلا فالمرض والشفاء من الله عزوجل جميعًا‘‘.(سورة الشعراء آیة:80، 74/7، دار إحياء التراث)
وفي رد المحتار:
’’قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس، وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه وذكر في حدود الإيمان أنه كفر.... لأنهم يعتقدون أنها تمام الدواء والشفاء، بل جعلوها شركاء؛ لأنهم أرادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم وطلبوا دفع الأذى من غير الله تعالى الذي هو دافعه‘‘.(كتاب الحظر والإباحة، 600/9:رشيدية)
وفي التنزيل:
«لِلّه مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لَمِنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لَمِنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيْمًا إِنَّهُ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ».(سورة الشورىٰ: 50، 49)
وفي روح المعاني:
’’﴿لله ملك السماوات والأرض﴾ لا لغيره سبحانه اشتراكا أو استقلالا ﴿يخلق ما يشاء﴾ من غير وجوب عليه سبحانه ﴿يهب لمن يشاء إناثا ويهب لمن يشاء الذكور أو يزوجهم ذكرانا وإناثا ويجعل من يشاء عقيما﴾ استئناف بياني أو بيان ليخلق أو بدل منه بدل البعض على ما اختاره القاضي، ولما ذكر سبحانه إذاقة الإنسان الرحمة وإصابته يضدها أتبع جل وعلا ذلك أن له سبحانه الملك وأنه تعالى يقسم النعمة والبلاء كما شاء بحكمته تعالى البالغة لا كما شاء الإنسان بهواه‘‘.(سورة الشورى، 318/24:موسسة الرسالة).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/219