نماز میں فاتحہ اور سورت کے درمیان بسم اللہ پڑھنے کا حکم

نماز میں فاتحہ اور سورت کے درمیان بسم اللہ پڑھنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے اور اگر سورہ فاتحہ کے بعد قرأت سورت کے درمیان سے شروع کی، تو بسم اللہ پڑھنی چاہیے یا نہیں؟ اس کے بارے میں مفتی بہ قول کی بھی و ضاحت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ سورہ فاتحہ اور سورت کے درمیان بسم اللہ پڑھنا مستحسن اور بہتر ہے۔
لمافي الھندیۃ:
ثم یأتي بالتسمیۃ ویخفیھا، وھي من القرآن آیۃ للفصل بین السور کذا في الظھیریۃ فیما یکرہ في الصلاۃ، ولا یتأدی بھا فرض القراء ۃ کذا في الجوھرۃ النیرۃ ویأتي بھا في أول کل رکعۃ: وھو قول أبي یوسف رحمہ اللہ کذا في المحیط، وفي الحجۃ وعلیہ الفتوی ھکذا في التتارخانیۃ ولا یسمي بین الفاتحۃ والسورۃ ھکذا في الوقایۃ، والنقایۃ وھو الصحیح ھکذا في البدائع، والجوھرۃ النیرۃ‘‘.(کتاب الصلاۃ: ١/ ١٣١:دار الفکر)
وفي حاشیۃ الطحطاوي:
’’فائدۃ: یسن لمن قرأ سورۃ تامۃ أن یتعوذ، ویسمی قبلھا واختلف فیما إذا قرأ آیۃ والأکثر علی أنہ یتعوذ فقط ذکرہ المؤلف في شرحہ من باب الجمعۃ ثم اعلم أنہ لا فرق في الإتیان بالبسملۃ بین الصلاۃ الجھریۃ والسریۃ، وفي حاشیۃ المؤلف علی الدرر :واتفقوا علی عدم الکراھۃ في ذکرھا بین الفاتحۃ والسورۃ بل ھو حسن سواء کانت الصلاۃ سریۃ أو جھریۃ، وینافیہ ما في القھستاني: أنہ لا یسمي بین الفاتحۃ والسورۃ في قولھما، وفي روایۃ عن محمد قال في المضمرات، والفتوی علی قولھما، وعن محمد أنھا تسن في السورۃ دون الجھریۃ؛ لئلا یلزم الإخفاء بین جھرین وھو شنیع واختارہ في العنایۃ والمحیط وقال: في شرح الضیاء لفظ الفتوی آکد من المختار وما في الحاشیۃ تبع فیہ الکمال وتلمیذہ ابن أمیر حاج حیث رجحا أن الخلاف في السنۃ، فلا خلاف أنہ لو سمي لکان حسنا؛ لشبھۃ الخلاف في کونھا آیۃ من کل سورۃ، ثم ھل یخص ھذا بما إذا قرأ السورۃ من أولھا، أو یشمل ما إذا قرأ من أوسطھا آیات مثلا وظاھر تعلیلھم کون الإتیان بھا لشبھۃ الخلاف في کونھا آیۃ من کل سورۃ یفید الأول کذا بحثہ بعض الأفاضل‘‘.(کتاب الصلاۃ: ٢٦١:رشیدیۃ).فقط. واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/82