غیر محرم عورتوں کی نعت سننے اور سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرنے کاحکم

غیر محرم عورتوں کی نعت سننے اور سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرنے کاحکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس کے بارے میں کہ کسی اجنبی شخص کا اجنبی عورت کی نعت سننا جائز ہے؟ اورکیا عورتوں کی آواز میں نعت نظم سوشل میڈیا (یوٹیوب وغیرہ پر ) ڈال سکتے ہیں یا نہیں؟آپ سے گزار ش ہے کہ شریعت کی روشنی میں مکمل رہنمائی فرمائیں۔

جواب

غیر محرم عورتوں کی نعت غیر محرم مردوں کے لیے سننا ناجائز اور حرام ہے، او رمروجہ عورتوں کی محافل نعت کا بھی یہی حکم ہے،اس لیے کہ شریعت میں عورتوں کو اذان دینے کی اجازت نہیں، توغیر مردوں کو نعت سنانے کی اجازت کیسے ہوگی؟

لہذا صورتِ مسئولہ میں عورت کی آواز میں نعت ونظم سننا اور اس کی ویڈیو بنا کرسوشل میڈیا پراَپ لوڈ(Upload) کرنا ناجائز ہے اس لیے کہ اس  میں درج ذیل خرابیاں اور مفاسد موجود ہیں:

  • اس میں جان دار کی تصویر سازی اور ویڈیو سازی  ہے جو شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔
  • وہ ویڈیوز مرد بھی دیکھیں گے، اور نامحرم کو دیکھنا جائز نہیں ہے، اس لیے اس کا سبب بننا بھی جائز نہیں ہے۔
  • یہ بلا ضرورت عورت کی آواز مردوں کو سنانا ہے۔
  • نعت اور نظم  میں عمومًا آواز کو نرم  اور پرکشش بنایا جاتا ہے، جب کہ عورتوں کو یہ حکم ہے  کہ  ضرورت کے موقع پر بھی مردوں  سے بات کریں تو لہجے میں نرمی اور کشش پیدا نہ کریں۔
  • اور اگر اس میں میوزک بھی شامل ہو تو یہ ایک مزید قباحت ہے، اور اس کی ناجائز ہونے کی ایک مستقل وجہ ہے۔
  • نامحرم عورتوں کے لیے مردوں کو خود  نعتیں اور نظمیں سنانا جائز نہیں ہے، اور کسی دینی ضرورت کے بغیر عورتوں کے لیے مردوں کو   بیانات سنانے اور مسائل بتانے  کی بھی اجازت نہیں ہے۔

قال اللہ تبارک وتعالیٰ:
˒˒فلاتخضعن بالقول فیطمع الذي في قلبہ مرض وقلن قولاً معروفاً˓˓.(سورۃ الأحزاب:32).
وفي صحیح البخاري:
’’عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ˒˒إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون˓˓‘‘.(كتاب اللباس، باب عذاب المصورين، رقم:5950،  ص: 463:دار ابن الجوزي)
وفي أحکام القرآن للجصاص:

’’وقَوْله تَعَالَى :{ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ } رَوَى أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : ( هُوَ الْخَلْخَالُ ) ، وَكَذَلِكَ قَالَ مُجَاهِدٌ : ( إنَّمَا نُهِيت أَنْ تَضْرِبَ بِرِجْلَيْهَا لِيُسْمَعَ صَوْتُ الْخَلْخَالِ ) وَذَلِكَ قَوْلُهُ : { لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ } .
قَالَ أَبُو بَكْرٍ : قَدْ عُقِلَ مِنْ مَعْنَى اللَّفْظِ النَّهْيُ عَنْ إبْدَاءِ الزِّينَةِ وَإِظْهَارِهَا لِوُرُودِ النَّصِّ فِي النَّهْيِ عَنْ إسْمَاعِ صَوْتِهَا ؛ إذْ كَانَ إظْهَارُ الزِّينَةِ أَوْلَى بِالنَّهْيِ مِمَّا يُعْلَمُ بِهِ الزِّينَةُ ، فَإِذَا لَمْ يَجُزْ بِأَخْفَى الْوَجْهَيْنِ لَمْ يَجُزْ بِأَظْهَرِهِمَا ؛ وَهَذَا يَدُلُّ عَلَى صِحَّةِ الْقَوْلِ بِالْقِيَاسِ عَلَى الْمَعَانِي الَّتِي قَدْ عَلَّقَ الْأَحْكَامَ بِهَا ، وَقَدْ تَكُونُ تِلْكَ الْمَعَانِي تَارَةً جَلِيَّةً بِدَلَالَةِ فَحْوَى الْخِطَابِ عَلَيْهَا وَتَارَةً خَفِيَّةً يُحْتَاجُ إلَى الِاسْتِدْلَالِ عَلَيْهَا بِأُصُولٍ أُخَرَ سِوَاهَا .
وَفِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ مَنْهِيَّةٌ عَنْ رَفْعِ صَوْتِهَا بِالْكَلَامِ بِحَيْثُ يَسْمَعُ ذَلِكَ الْأَجَانِبُ ؛ إذْ كَانَ صَوْتُهَا أَقْرَبَ إلَى الْفِتْنَةِ مِنْ صَوْتِ خَلْخَالِهَا ؛ وَلِذَلِكَ كَرِهَ أَصْحَابُنَا أَذَانَ النِّسَاءِ ؛ لِأَنَّهُ يُحْتَاجُ فِيهِ إلَى رَفْعِ الصَّوْتِ وَالْمَرْأَةُ مَنْهِيَّةٌ عَنْ ذَلِكَ ، وَهُوَ يَدُلُّ أَيْضًا عَلَى حَظْرِ النَّظَرِ إلَى وَجْهِهَا لِلشَّهْوَةِ ؛ إذْ كَانَ ذَلِكَ أَقْرَبَ إلَى الرِّيبَةِ وَأَوْلَى بِالْفِتْنَةِ.‘‘(احکام القرآن للجصاص،465/3:مکتبة رشیدیة)

وفي الشامیۃ:
’’ (قوله:وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح‘‘.
’’(قوله:على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر:وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام:«التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلا يحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولا تلبي جهرا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها - عليه الصلاة والسلام - من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ‘‘.(مطلب في ستر العورۃ:406/1،سعید).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:25/255