عورتوں کا گھر میں تراویح کی جماعت کرانے کا حکم

عورتوں کا گھر میں تراویح کی جماعت کرانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تراویح میں عورتوں کی جماعت کیسی ہے ،جب کہ امام بھی عورت ہو اور مقتدی بھی عورت؟جو عورت حافظِ قرآن ہو اور تراویح میں سنائے بغیر اس کا قرآن کریم حفظِ نہ رہ سکتا  ہو،بھولنے کا اندیشہ ہو تو ایسی حافظہ عورت گھر کے اندر عورتوں کی جماعت میں تراویح کے اندر قرآن کریم سنا سکتی ہے ،یا نہیں؟

جواب

عورتوں کی جماعت کے بارے اصل حکم یہی ہے کہ ان کی جماعت مکروہِ تحریمی ہے۔ (ویکرہ تحریما جماعۃ النساء ولو في التراویح. وفي الرد: قولہ:(ولو في التراویح)أفاد أن الکراھۃ في کل ما تشرع فیہ جماعۃ الرجال فرضا أو نفلا.(الدر المختار مع رد المحتار: باب الإمامۃ: ١/٥٦٥، سعید) اگر چہ تراویح میں ہو،اس لیے خواتین کو تراویح اور وتر کی نماز بغیر جماعت کے الگ الگ پڑھنی چاہیے، البتہ جو عورت قرآن کریم کی حافظہ ہو اور تراویح میں سنائے بغیر حفظ رکھنا مشکل ہو اور بھولنے کا قوی اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں عورتوں کی جماعت تراویح میں حافظہ عورت کو قرآن کریم سنانے کی کوئی تصریح تو نہیں ملی، لیکن حضرت مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب بلا تداعی صرف گھر کی خواتین کو حافظہ خاتون کے قرآن کریم کی یادداشت محفوظ رکھنے کی غرض سے اس شرط کے ساتھ اجازت دیا کرتے تھے کہ حافظہ خاتون کی آواز گھر سے باہر نہ جائے اور تداعی سے پرہیزکیا جائے، تداعی کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر دو باتوں میں سے کوئی بات نہ پائی جائے، ایک یہ کہ اس کے لیے باقاعدہ اہتمام کر کے خواتین کو نہ بلایا جائے،دوسرے یہ کہ اگر چہ اہتمام سے خواتین کو نہ بلایا ، لیکن اقتداء کرنے والی خواتین کی تعداد امام خاتون کے علاوہ دو تین سے زیادہ نہ ہو، حضرت مفتی اعظم پاکستان کی اس اجازت کی تائید تصریحاتِ ذیل سے ہوتی ہے، بلکہ آخری تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظہ خاتون کی اگر صرف ایک ہی خاتون مقتدی ہو اور دونوں برابر کھڑی ہوں تو اس میں کچھ کراہت نہیں ۔
بہر حال جہاں تک ہو سکے حافظہ خواتین کو بھی ختم تراویح کی جماعت سے پرہیز کرنا چاہیے، البتہ بوقتِ ضرورت شرائط ِمذکورہ کے ساتھ اس مذکورہ گنجائش پر عمل کر سکتی ہیں ۔
و إمامۃ المرأۃ للنساء جائزہ إلا أن صلاتھن فرادی أفضل .(خلاصۃ الفتاوی: کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس عشر في الإمامۃ والاقتداء، جنس آخر في صحۃ الاقتدائ: ١/١٤٧، رشیدیہ)
وکرہ جماعۃ النساء تحریما للزوم أحد المحظورین قیام الإمام في الصف الأول وھو مکروہ أو تقدم الإمام وھو أیضا مکروہ في حقھن.(حاشیۃ الطحاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ: ٣٠٤، قدیمي)
قولہ ویکرہ تحریماً جماعۃ النساء : لأن الإمام، إن تقدمت لزم زیادۃ الکشف وإن وقفت وسط الصف لزم ترک المقام مقامہ وکل منھمام لا مکروہ کما في العنایۃ وھذا یقتضي عدم الکراہۃ لو اقتدت واحدۃ فقط محاذیۃ لفقد الأمرین.(حاشیۃ الطحطاوي علی الدر:کتاب الصلاۃ:١/٢٤٥، دارالمعرفۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی