صرف زمین کی وجہ سے وطن اصلی برقرار نہیں رہتا

صرف زمین کی وجہ  سے وطن اصلی برقرار نہیں رہتا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ گزارش ہے کہ ایک شخص کا تعلق کسی گاؤں سے ہے، (کشمیریا گلگت)اور وہ چھوڑ کر کراچی آگیا اور بیو ی بچے وغیرہ بھی بیس ،پچیس سال سےیہاں ہیں،لیکن گاؤں میں نانا ،دادا کا خاندان موجو دہے تو وہاں جب وہ  جائے تو قصر نماز پڑھےگا  یا پوری ؟ اگر زمین میں موجود ہو یا نہ ہو ،دونوں صورتوں میں کون سی نماز پڑھے؟ تفصیل سے وضاحت فرما دیں۔

جواب

واضح رہے کہ مذکورہ شخص کا کراچی کو وطن اصلی بنانے سے سابق وطن( کشمیر یا گلگت)وطن اصلی نہیں رہا،لہٰذا سابقہ وطن جانے پر قصر کرے گا ،خواہ وہاں اس کی زمین ہو یا نہ ہو۔

''(الْوَطَنُ الْأَصْلِیُّ) ہُوَ مَوْطِنُ وِلَادَتِہِ أَوْ تَأَہُّلِہِ أَوْ تُوَطِّنْہُ(یَبْطُلُ بِمِثْلِہِ) إذَا لَمْ یَبْقَ لَہُ بِالْأَوَّلِ أَہْلٌ،أَیْ وَإِنْ بَقِیَ لَہُ فِیہِ عَقَارٌ قَالَ فِی النَّہْرِ: وَلَوْ نَقَلَ أَہْلَہُ وَمَتَاعَہُ وَلَہُ دُورٌ فِی الْبَلَدِ لَا تَبْقَی وَطَنًا لَہُ.'' (الدر المختار، باب صلاۃ المسافر،٢/١٣٢، سعید)

''الْوَطَنُ الْأَصْلِیُّ ہُوَ وَطَنُ الْإِنْسَانِ فِی بَلْدَتِہِ أَوْ بَلْدَۃٍ أُخْرَی اتَّخَذَہَا دَارًا وَتَوَطَّنَ بِہَا مَعَ أَہْلِہِ وَوَلَدِہِ، وَلَیْسَ مِنْ قَصْدِہِ الِارْتِحَالُ عَنْہَا بَلْ التَّعَیُّشُ بِہَا وَہَذَا الْوَطَنُ یَبْطُلُ بِمِثْلِہِ لَا غَیْرُ، وَہُوَ أَنْ یَتَوَطَّنَ فِی بَلْدَۃٍ أُخْرَی وَیَنْقُلَ الْأَہْلَ إلَیْہَا فَیَخْرُجَ الْأَوَّلُ مِنْ أَنْ یَکُونَ وَطَنًا أَصْلِیًّا حَتَّی لَوْ دَخَلَہُ مُسَافِرًا لَا یُتِمُّ.'' (البحرائق، باب المسافر ٢/٢٣٩،رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی